کراچی ( بیورورپورٹ) سندھ حکومت اور وفاقی حکومت نے متفقہ طور پر کراچی سرکلر ریلوے (کے سی آر) سمیت قومی مفاد کے میگا پراجیکٹس شروع کرنے کیلئے تمام خامیاں دور کرنے کے بعد تھر کے کوئلے کو ملک کے بالائی علائقوں تک پہنچانے کیلئے ریلوے ٹریک بچھانا، مختلف ہوائی اڈوں کو فعال بنانا اور صوبائی حکومت اور سول اتھارٹی کے درمیان زمینی تنازعات کو اولین ترجیحی بنیادوں پر حل کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ یہ فیصلہ وزیر اعلیٰ سندھ سید مراد علی شاہ اور وفاقی وزیر برائے ریلوے و ہوابازی خواجہ سعد رفیق اور انکی متعلقہ ٹیموں کے درمیان جمعہ کو وزیراعلیٰ ہاؤس میں ہونے والی ملاقات میں کیا گیا۔ وزیراعلیٰ کی معاونت وزیر ٹرانسپورٹ شرجیل میمن، مشیر قانون مرتضیٰ وہاب، چیف سیکریٹری سہیل راجپوت، چیئرمین پی اینڈ ڈی حسن نقوی، سینئر ممبر بورڈ آف روینیو بقا اللہ انڑ، کمشنر کراچی اقبال میمن، سیکریٹری توانائی ابوبکر، سیکریٹری ٹرانسپورٹ حلیم شیخ نے کی جبکہ وفاقی وزیر کی معاونت انکی ٹیم کے ارکان نے کی جن میں سی ای او ریلوے فرخ تمیور، ایڈیشنل جی ایم ریلوے عامر بلوچ، سی ای او ریلوے نثار میمن، ڈی ایس کاشف یوسفانی، پی ڈی کے سی آر امیر داؤپوٹو اور ڈی جی ایوی ایشن خاقان مرتضیٰ شامل تھے۔
کے سی آر: وزیراعلیٰ سندھ نے کہا کہ کراچی ایک بڑا شہر ہے اور اس کے ٹریفک کے مسائل صرف ایک جدید کے سی آر سسٹم کے قیام سے ہی حل ہوسکتے ہیں جسے مختلف بی آر ٹی لائنوں کے ساتھ ملایا جائے گا۔ تاریخ کا مشاہدہ کرتے ہوئے مراد علی شاہ نے کہا کہ کے سی آر کو 1964 میں شروع کیا گیا تھا اور 1984 تک یہ ایک مؤثر ماس ٹرانسپورٹیشن پروجیکٹ رہا۔ انہوں نے مزید کہا کہ 1984 کے بعد اس کی آپریشنل کارکردگی خراب ہوتی رہی جس کے نتیجے میں مسافروں کی تعداد میں کمی آئی اور بعد میں دسمبر 1999 میں اسے بند کر دیا گیا۔ وزیراعلیٰ سندھ نے کہا کہ اس منصوبے کو CPEC کے ترجیحی منصوبوں میں شامل کیا گیا اور دسمبر 2016 میں CPEC سے متعلقہ جوائنٹ کوآرڈینیشن کمیٹی نے اس کی منظوری دی تھی۔ انہوں نے کہا کہ ECNEC نے 207546 ملین روپے کی لاگت سے اس منصوبے کی منظوری دی جس میں 1.971 ارب ڈالر کا چینی قرضہ بھی شامل ہے اورانھوں نے نیشنل ریلوے اتھارٹی کو بتایا کہ چین نے نومبر 2017 میں چینی معیار کے مطابق کی گئی فزیبلٹی کی منظوری دی تھی۔ مراد علی شاہ نے کہا کہ اس منصوبے کو تمام متعلقہ فورمز سے منظور کیا گیا ہے لیکن زمینی طور پر کچھ نہیں کیا گیا۔ وزیر ریلوے سعد رفیق نے کہا کہ وزیراعظم کا دورہ چین جلد طے ہے جہاں وہ ان کے ہمراہ ہوں گے، کے سی آر ایجنڈے میں شامل ہے اور امید ہے کہ اسے منظور کرلیا جائے گا۔
پروفائل: پروجیکٹ میں 43.225 کلومیٹر معیاری گیج ڈوئل کیریج ٹریک اربن ریل ماس ٹرانزٹ سسٹم کی تعمیر کا تصور کیا گیا ہے جو تین سال کی مدت میں بنایا جائے گا۔ گریڈ سیکشن میں کل 17.935 کلومیٹر ہے اور ایلیویٹڈ 24.21 کلومیٹر ہے جبکہ انڈر پاس 1.08 کلومیٹر ہے۔ 30 اسٹیشنوں میں سے 14 گریڈ کے اور 16 اوچے درجے کے ہیں۔ یومیہ سواری کا تخمینہ 457608 ہے جس کے یومیہ دس لاکھ تک پہنچنے کی امید ہے۔ فی ٹرین مسافروں کو لے جانے کی گنجائش کا تخمینہ 814 ہے۔
تھر کول کی آمدورفت: وزیراعلیٰ سندھ نے کہا کہ اب وقت آگیا ہے کہ ملک کے کوئلے سے چلنے والے تمام بجلی کے منصوبوں کو مقامی تھر کے کوئلے سے ایندھن فراہم کیا جائے۔ انہوں نے کہا کہ اس سے زرمبادلہ کی بچت نہیں ہوگی لیکن درآمد شدہ کوئلے سے سستا ہوگا،اور وزیر ریلوے پر زور دیا کہ تھر کول مائنز سے مین لائن تک ریلوے ٹریک بچھانے کا کام تیز کیا جائے۔ اجلاس نے مختلف ٹریکس پر مکمل بحث کے بعد بالآخر میرپورخاص کھوکھراپار سیکشن پر 105 کلومیٹر تھر کول فیلڈز سے نیو چھور ہالٹ اسٹیشن کی منظوری دی۔ فیصلہ کیا گیا کہ میرپورخاص-نیو چھور سیکشن پر موجودہ سگنلنگ سسٹم کو بہتر بنایا جائے گا اور میرپورخاص سے چھور تک تمام کراسنگ اسٹیشنز پر 700 میٹر کی لمبائی والے دو یونیورسل لوپ لگائے جائیں گے۔ وزیر اعلیٰ سندھ اور وفاقی وزیر نے وزارت خزانہ اور پلاننگ کمیشن کے ایک ایک رکن پر مشتمل ایک کمیٹی تشکیل دی (جس کیلئے وزیر اعلیٰ سندھ اور وزیر ریلوے سے لے کر وفاقی وزیر خزانہ مفتاح اسماعیل اور وزیر منصوبہ بندی احسن اقبال)، ایک رکن وزارت ریلوے ، چیئرمین پی اینڈ ڈی سندھ اور سیکریٹری توانائی سندھ شامل ہیں۔ کمیٹی منظوری کیلئے مالیاتی اور تکنیکی پہلوؤں کا تجزیہ اور سفارش کرے گی، کمیٹی ایک ماہ میں اپنی رپورٹ دے گی تاکہ منصوبے پر کام شروع کیا جا سکے۔وزیراعلیٰ سندھ نے بتایا کہ یہ منصوبہ پبلک پرائیویٹ پارٹنرشپ کے تحت شروع کیا جائے گا جس میں کچھ بین الاقوامی کمپنیوں نے دلچسپی ظاہر کی ہے تاہم اجلاس میں فیصلہ کیا گیا کہ بین الاقوامی ٹینڈرز جاری کیے جائیں گے۔
ایئرپورٹس: وزیراعلیٰ سندھ نے تین ہوائی اڈوں حیدرآباد، سہون اور تھر کے مائی بختاور ایئرپورٹ کو فعال کرنے کا ایک اور مسئلہ ملاقات میں اٹھایا جس پر وزیر ریلوے اور ہوا بازی نے کہا کہ انکی ٹیم نے انہیں بتایا ہے کہ حیدرآباد ایئرپورٹ پر تجاوزات کے کچھ مسائل ہیں۔ اس موقع پروزیر ٹرانسپورٹ شرجیل میمن نے کہا کہ اگر ایوی ایشن ایئرپورٹ کو فعال کرنے پر راضی ہو جائے تو وہ اس مسئلے کو حل کریں گے۔ اجلاس میں حیدرآباد ایئرپورٹ کو فعال بنانے کے طریقوں اور ذرائع کا مطالعہ کرنے کیلئے ایک تکنیکی ٹیم بھیجنے کا فیصلہ کیا گیا اور اسی طرح کا معائنہ سہون اور تھر ایئرپورٹ کیلئے بھی کیا جائے گا۔ وزیراعلیٰ سندھ نے کہا کہ تھر کا ہوائی اڈہ سب سے اہم ہے کیونکہ وہاں پر کریکٹر فلائٹس اترتی ہیں اس لیے اس کا فعال ہوناتجارتی اہمیت کا حامل ہے۔
سندھ حکومت-سول ایوی ایشن اراضی کا معاملہ: وزیراعلیٰ سندھ نے دورہ پر آئے وفاقی وزیر کو بتایا کہ سول ایوی ایشن کی جانب سے ایئرپورٹ کے قریب 80 ایکڑ سرکاری اراضی کا دعویٰ کیا گیا ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ صوبائی حکومت کو اپنی ریڈ لائن بی آر ٹی کیلئے ڈپو کے قیام پر اس سے استفادہ لینا ہوگا۔اجلاس نے اس مسئلے کو خوش اسلوبی سے حل کرنے کا فیصلہ کیا اور چیف سیکرٹری، ممبر سروے آف پاکستان اور سینئر ممبر بورڈ آف ریونیو اور سول ایوی ایشن اتھارٹی کے ایک ممبر پر مشتمل ایک کمیٹی تشکیل دی جو اس معاملے کی انکوائری کرے گی اور ایک ماہ میں اپنی سفارشات پیش کرے گی۔ وزیراعلیٰ سندھ نے وفاقی وزیر خواجہ سعد رفیق کا شکریہ ادا کیا کہ وہ اپنی وزارتوں سے جڑے تمام مسائل حل کرنے کیلئے پرعزم ہیں