لندن ( خصوصی تحریر)آج کے مقابلے میں گزرے دنوں کی دنیا بہت خوبصورت روایات کی امین تھی۔ جہاں کے رہنے والے اخلاقی اقدار چھوٹے بڑوں کا خیال ایک دوسرے کے احترام محبت خلوص میں نہ جانے کیا کیا کر گزرتے تھے جس کا تصور آج کی مادہ پرست دنیا میں ممکن نہیں۔ معین بھائی سے چار دہائی پہلے ملاقات فوٹو گرافر کے ہوئی خالق دینا ہال لائبریری ایسوسی ایشن کے زیراہتمام معروف شعراء "جوش ملیح آبادی اور فراق گھورکپوری” کی یاد میں یونیورسٹی اور کالجوں کے درمیان مقابلہ بیعت بازی تھا۔ اور اتفاقاٗ مزکورہ پروگرام کے آرگنائزنگ سیکرٹری کے معین الحق بھائی کو اپنا تعارف کراتے ہوئے خوش آمدید کہا تھا۔ معین بھائی نے ہنستے ہوئے کہا کہ اسمارٹ بوائے حبیب جان یونس رضوی یا ابراہیم سیٹھ کو بلائیں، ویسپا اسکوٹر پر سوار اسمارٹ فلمی اسٹائل ہئیر کٹنگ پینٹ شرٹ کالے چشمہ میں فوٹو گرافر کم اور ہیرو لگ رہے تھے۔ رسمی گفتگو کے بعد میڈیا گیلری میں نشست فراہم کرنے کے بعد اس وعدے پر جیسے ہی یونس رضوی اور ابراہیم سیٹھ آتے ہیں آپ کے پاس لے کر آئیں گے۔ یونس رضوی بانی اسٹوڈینٹس ویلفئیر آرگنائزیشن اور سیٹھ ابراہیم خالق دینا ہال لائبریری ایسوسی ایشن کے صدر، ہم اپنے دیگر معاملات میں مصروف ہوگئے۔ مہمان خصوصی کراچی پورٹ ٹرسٹ کے چئیرمین رئیر ایڈمرل ایم۔ آئی۔ خان تھے اور معروف شاعر راغب مراد آبادی مقابلے کے میزبان جبکہ اس وقت کے نوجوان شاعر رونق حیات معاون خاص تھے۔ پروگرام کیا تھا ایک جشن جوش اور فراق تھا کالجوں اور یونیورسٹی کے طلباء میں بیعت بازی کی گھمسان کی جنگ چھیڑیں ہوئی تھی۔ معین الحق بھائی ایک ایک نوجوان شاعر اور شاعرہ کی مختلف زاویوں سے فوٹو شوٹ کرتے نظر آتے اور یہ سلسلہ بیعت بازی کے اختتامی لمحات پر جاکر رکا۔ آخر میں جاتے جاتے اسٹیج اور خصوصی طور پر ہماری تصویریں بنائیں پروگرام میں دوسرے رسائل و میگزین کے رپورٹر اور فوٹو جرنلسٹ بھی آئے ہوئے تھے۔ لیکن وہ ابتدائی سیشن کی فوٹیج لے کر جاچکے تھے لیکن معین الحق کی اپنے کام سے محبت اور دیانتداری قابل دید تھی۔ اگلے دن کے تمام اخبارات میں بیعت بازی کے پروگرام کی کوریج شائع ہوئی لیکن جو کوریج روزنامہ امن کے فرنٹ پیج پر کراچی یونیورسٹی کی شاعرہ ذکیہ غزل کی پورٹریٹ نما تصویر شائع ہوئی جو مقابلہ کی فاتح تھی۔ یہ وہی مقابلہ بیعت بازی تھا جس کے فاتح طلباء ذکیہ غزل اور ن۔ م۔ دانش آگے جاکر اپنے وقت کے نامور شاعروں میں شمار ہوئے۔ آج کل ذکیہ غزل کینیڈا جبکہ ن۔ م۔ دانش امریکہ میں سکونت اختیار کئے ہوئے ہیں۔ اس کے سامنے تمام اخبارات کی کوریج حتیٰ کہ جنگ اور اخبارِ جہاں کی کوریج بھی ماند پڑگئی۔ اور مسلسل ایک ہفتہ تک روزنامہ امن اخبار نے اندرونی صفحات پر بیعت بازی کے مقابلے کی تصاویر شائع کیں۔ یاد رہے ان دنوں روزنامہ جنگ کے مقابلے میں روزنامہ امن کی مقبولیت امن سے محبت جنگ سے نفرت کے نعرے اور جمعہ خان کے کالم کی وجہ سے بہت زیادہ تھی۔ اور اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ بطور سیاسی کارکن کی مشہوری سے پہلے کراچی کے ادبی تعلیمی اور کھیلوں کے اخباری صفحات میں مضامین تصاویر شائع ہوتیں رہتی تھی جو معین الحق بھائی کی مہربانیوں کے بعد یہ سلسلہ ایسا چل نکلا کہ اس کے بعد اخبارِ جہاں سوشل راؤنڈ اپ صفحہ کے انچارج سید اسد جعفری صاحب، صفیہ رشید صاحبہ، سید عبدالرؤف بھائی اور ویکلی میگزین کے انچارج ایوب جان سرہندی تک جا پہنچا۔ معین الحق بھائی کی پہلی کلک نے سماجی ادبی اور بعد میں سیاسی سرگرمیوں میں اس قدر مشہور و معروف کردیا کہ آج تک سیاسی سماجی حوالوں سے زندہ ہیں۔ معین بھائی کا روزنامہ امن اخبار کا چھوٹا سا ڈارک روم جہاں شام کے وقت کراچی کے تمام فوٹو جرنلسٹ جمع ہوتے چائے کا دور چلتا اور معین بھائی کی سیاسی سماجی ادبی پروگرامز کی چیدہ چیدہ تصاویر لے کر جاتے۔ امن اخبار سے دیگر فوٹو گرافر جن میں امین رنگون والا شریف بھائی اور دیگر اور بعد میں معین الحق کے چھوٹے بھائی نعیم الحق بھی منسلک رہے۔ معین الحق کا ڈارک روم پاکستان کی اخباری صنعت کا سب سے بڑا جمہوری ڈارک روم اور فوٹو جرنلسٹوں کیلئے یونیورسٹی کا درجہ رکھتا تھا۔ جہاں پاکستان کی جمہوری تاریخ کی بلئین بلئین ڈالرز کی یادگار تصویروں کی ڈیولپنگ کی گئیں۔ معین بھائی کو بعد از مرگ ان کی خدمات کے اعتراف میں تمغہ دینا حکومت پاکستان کیلئے باعث اعزاز ہوگا۔ معین بھائی سے خالق دینا ہال سے رابطہ کا شروع ہونے والا تعلق ہمیشہ قائم رہا چند دنوں پہلے بیماری کے دوران ٹیلی فونک رابطہ کیا تھا معین بھائی سے طبعیت کی خرابی کی وجہ سے حال احوال نہ ہوسکا دوبارہ رابطہ کرنے کے وعدہ ہوا لیکن وعدہ وفا ہونے سے پہلے معین بھائی سفرِ آخرت پر روآنہ ہوگئے۔ اللہ تعالیٰ معین الحق بھائی کو جنت الفردوس کے اعلیٰ ترین مقام پر فائز فرمائے اور تمام لواحقین احباب عزیز اقارب کو صبر جمیل دے۔ آمین