کراچی ( کورٹ رپورٹر) سپریم کورٹ میں دعا زہرہ کے والد نے بیٹی کے اغوا سے متعلق اپنی درخواست واپس لے لی جس پر عدالت نے کیس نمٹادیا۔سپریم کورٹ کراچی رجسٹری میں جسٹس سجاد علی شاہ، جسٹس منیب اختر اور جسٹس محمد علی مظہر پر مشتمل بینچ کے روبرو دعائے زہرا کی بازیابی اور کم عمری میں شادی سے متعلق مہدی کاظمی کی سندھ ہائی کورٹ فیصلے کے خلاف اپیل کی سماعت ہوئی۔ دعائے زہرا کے والد مہدی کاظمی اپنے وکیل نبیل نذیر احمد کے ہمراہ پیش ہوئے۔ مہدی کاظمی کے وکیل نے موقف دیا کہ سندھ ہائیکورٹ نے دعائے زہرا کو مرضی سے فیصلہ کرنے کا حکم دیا۔ جسٹس سجاد علی شاہ نے مہدی کاظمی سے مکالمہ میں کہا کہ آپ کو بیٹی سے ملنے دیا گیا؟ مہدی کاظمی نے کہا کہ مجھے بالکل بھی نہیں ملنے دیا گیا۔
جسٹس سجاد علیشاہ نے استفسار کیا کہ کیا واقعی ملاقات نہیں ہوئی؟ مہدی کاظمی نے کہا کہ چیمبر میں 5 منٹ ملاقات کروائی گئی۔ مہدی کاظمی نے کہا کہ دوران ملاقات کئی پولیس اہلکار کھڑے تھے۔ جسٹس منیب اختر نے ریمارکس دیئے کہ کیا آپ نے لاہور ہائیکورٹ کے فیصلے کو وہاں چیلنج کیا؟ وکیل نے موقف دیا کہ معذرت خواہ ہوں لاہور ہائیکورٹ درخواست نمٹا دی گئی تھی۔ جسٹس سجاد علی شاہ نے ریمارکس دیئے کہ سندھ ہائیکورٹ نے کہا کہ غیر قانونی حراست نہیں بنتی۔ عدالت نے مہدی کاظمی کے دوسرے وکیل کو درمیان میں بولنے سے روک دیا۔ عدالت نے مہدی کاظمی کے دوسرے وکیل کو کہا کہ آپ اپنے وکیل کے ذریعے بات کرسکتے ہیں۔ آپ یہاں اس کیس میں وکیل نہیں۔ جسٹس منیب اختر نے ریمارکس دیئے کہ ہمیں کیس کی حساسایت کا اندازہ ہے مگر جذباتی ہونے کی ضرورت نہیں۔ جسٹس سجاد علیشاہ نے ریمارکس دیئے کہ کم عمری کی شادی سمجھ آتی ہے۔ دو عدالتوں میں دعائے زہرا نے بیان دے دیا۔ اب آپ کیا چاہتے ہیں۔ اغوا تو ثابت ہی نہیں ہوتا۔ سندھ ہائیکورٹ کا دو رکنی بینچ کے سامنے دعا کا بیان ہو گیا۔ جسٹس منیب اختر نے ریمارکس دیئے کہ 2 قانونی نکات ہیں، ایک اغوا اور دوسری کسٹڈی۔ کیا آپ نے شادی کو چیلنج کیا؟ جسٹس محمد علی مظہر نے ریمارکس دیئے کہ شادی کو تو والد بھی چیلنج نہیں کرسکتا۔ شادی کی حیثیت کو چیلنج تو صرف لڑکی کر سکتی ہے۔ لڑکی اتنے بیانات دے رہی ہے، آپ کو کیا شبہ ہے؟ عدالت نے والد سے مکالمے میں کہا کہ اگر ملاقات ہوگئی تو لڑکی نے پھر منع کردیا تو پھر کیا ہوگا؟ جسٹس محمد علی مظہر نے ریمارکس دیئے کہ لڑکیاں عدالت میں بیان دے دیں تو پھر کیا ہو سکتا ہے؟ مہدی کاظمی نے کہا کہ لڑکی ابھی چھوٹی ہے۔ جستس محمد علی مظہر نے ریمارکس دیئے کہ قانون تو واضح ہے۔ جسٹس منیب اختر نے ریمارکس دیئے کہ لڑکی کی شادی کو صرف لڑکی ہی چیلنج کر سکتی ہے۔ آپ میرج ایکٹ پڑھ لیں۔ آپ قانون نکات کو سمجھیں۔ آپ سول سوٹ دائر کر سکتے ہیں۔
آپ گارڈین کا کیس سیشن عدالت میں دائر کر سکتے ہیں۔ حراسمنٹ اور اغوا کا کیس تو نہیں بنتا۔ اگر 16 سال سے کم عمر میں بھی شادی ہو تو نکاح رہتا ہے۔ نکاح تو آپ ختم نہیں کر سکتے۔ بہلے سے کم عمری میں نکاح ہو تو نکاح ختم نہیں ہوتا۔ جسٹس محمد علی مظہر نے ریمارکس دیئے کہ سندھ کے قانون کے تحت بھی نکاح ختم نہیں ہوتا۔ عدالت نے مہدی کاظمی سے مکالمے میں کہا کہ آپ چاہتے کیا ہیں؟ مہدی کاظمی نے کہا کہ بھلے سے بچی ملاقات کے بعد انکار کرے، میرا موقف ہوگا بیٹی میرے حوالے کریں۔ جسٹس سجاد علی شاہ نے ریمارکس دیئے کہ ٹھیک ہے پھر ہم فیصلہ محفوظ کر لیتے ہیں۔ مہدی کاظمی نے کہا کہ ہمارے ہاں ولی کے بغیر شادی نہیں ہوتی۔ جسٹس محمد علی مظہر نے ریمارکس دیئے کہ کیا باتیں چل رہی ہیں۔ کہ آپ کا مسلک اور ان کا مسلک اور ہے۔ ملاقات کے بعد بھی بچی نہ مانی تو کیا کر لیں گے۔ ہم بچی سے زبردستی نہیں کر سکتے۔ سپریم کورٹ نے دعائے زہرا کیس نمٹا دیا۔ مہدی کاظمی کے وکیل کی واپسی کی استدعا پر سپریم کورٹ نے درخواست خارج کردی۔ سپریم کورٹ نے مہدی کاظمی کو متعلقہ فورم سے رجوع کرنے کی ہدایت کردی۔ سپریم کورٹ نے ریمارکس دیئے کہ متعلقہ کیس ہمارے دائرہ کار میں نہیں آتا۔ میڈیکل بورڈ کی تشکیل کے لئے مناسب فورم سے رجوع کرسکتے ہیں۔ مہندی کاظمی کے وکیل نے میڈیا سے بات کرتے ہوئے کہا کہ سپریم کورٹ نے میڈیکل بورڈ کے لئے متعلقہ فورم سے رجوع کرنے کا کہا ہے۔ دعا زہرا کا نکاح نامہ جعلی نہیں۔ نکاح نامہ کسی بھی فورم پر جعلی ثابت نہیں ہوا۔ سپریم کورٹ نے سندھ ہائیکورٹ کی آبزرویشن ختم کردیں۔ اب ہم نئے میڈیکل بورڈ کے لئے جاسکتے ہیں۔ عمر کا معاملہ اب دوبارہ ٹرائل کورٹ میں اٹھائینگے۔ ہم نے اپنا کیس لڑا۔ عدالت نے مناسب فیصلہ جاری کیا۔ عدالت نے عمر کے حوالے سے متعلقہ ختم کردیا۔ ہم سیکریٹری صحت سے نئے میڈیکل بورڈ بنانے کی استدعا کردیں گے۔ ہمیں ہیقین ہے کہ میڈیکل رپورٹ ہمارے حق میں ہوگی۔