اسلام آباد(نمائندہ خصوصی)پاکستان کے ساتھ دیگرممالک میں بھی عدالتی کارروائی کوبراہ راست نشرکرنے کی روایات موجود ہیں انڈیا کی سپریم کورٹ نے کوروناوائرس کی وجہ سے مقدمات کی سماعت لائیوکرنے کی منظوری دی تھی 2018 میں ہی عدالتی کارروائی کی لائیو سٹریمنگ کی منظوری دے دی تھی۔ تاہم جج وکلا کو ویڈیو کے ذریعے دلائل دینے کا موقع دینے کو تیار تھے یا نہیں مگر کورونا وائرس نے انھیں ایسا کرنے پر مجبور کیا۔ یہ اور بات ہے کہ اس دوران یہ بھی دیکھنے میں آیا کہ وکلا جس طرح خوب تیار ہو کر عدالتوں کا رخ کرتے ہیں وہ ورچوئل سماعت میں اپنے لباس کا اتنا خیال نہیں رکھ پاتے۔اس براہ راست کوریج میں کئی دلچسپ واقعات بھی پیش آئے جب ایک بار ایک وکیل بغیر شرٹ پہنے ہی دلائل دینا شروع ہو گئے جبکہ ایک اور وکیل کو دلائل دیتے ہوئے حقہ پیتے ہوئے دیکھا گیا۔خیال رہے کہ پاکستان میں سیاسی رہنما بھی وقتاً فوقتاً اپنے مقدمات کی لائیو سٹریمنگ کا مطالبہ کرتے رہتے ہیں۔ایسا ہی مطالبہ سابق وزیراعظم نواز شریف نے اپنے خلاف قائم کیے جانے والے تین پانامہ ریفرنسز کے دوران بھی عدالتوں سے کیا تھا۔ نواز شریف کا کہنا تھا کہ وہ چاہتے ہیں کہ عوام فیصلہ کریں کہ ان کے خلاف قائم بدعنوانی کے مقدمات میں کتنی حقیقت ہے تاہم عدالت نے ان کی یہ درخواست مسترد کر دی تھی۔سپریم کورٹ میں بھی وکلا اور فریقین مختلف مقدمات میں لائیو سٹریمنگ کی درخواست کر چکے ہیں مگر ابھی تک عدالت نے ان درخواستوں پر زیادہ غور نہیں کیا ہے۔سابق وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو کی پھانسی کے ریفرنس اور1990 کے انتخابات میں فوج کی طرف سے مبینہ دھاندلی کے اصغر خان کیس میں بھی عدالت سے لائیو سٹریمنگ کی استدعا کی گئی تھی مگر اس وقت کے چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری نے یہ کہہ کر ان درخواستوں کو مسترد کر دیا تھا کہ ابھی پاکستان کی عدالتیں مغربی ممالک کی طرح اتنی ایڈوانس نہیں ہیں۔