اسلام آباد(نمائندہ خصوصی)چیف آف پاکستان جسٹس عمرعطاءبندیال نے نئے عدالتی سال کی تقریب سے خطاب میں برداشت اور معاف کرنے کی پالیسی اختیارکرنے پرزور دیاہے اور نئے چیف جسٹس قاضی فائزعیسٰی کے لیے نیک خواہشات کااظہارکرتے ہوئے کہاہے کہ بلاشبہ میرے بھائی جسٹس قاضی فائز عیسی قابل تعریف ہیں، جسٹس قاضی فائز میرے لیے بہت معتبر ہیں۔چیف جسٹس پاکستان نے کہاکہ فروری 2023 میں سپریم کورٹ کے سامنے کئی آئینی مقدمات آئے، آئینی ایشوزمیں الجھا کر عدالت کاکڑا امتحان لیا گیا۔ جو واقعات پیش آئے انہیں دہرانا نہیں چاہتا لیکن اس سے عدالتی کارکردگی متاثر ہوئی،ڈیمزفنڈ کے اس وقت 18 ارب روپے 60 کروڑ روپے اسٹیٹ بنک میں انویسٹ کیے گئے ہیں، ڈیمز فنڈ کی نگرانی سپریم کورٹ کا 5 رکنی بینچ کررہا ہے۔ زیرالتوا مقدمات میں خاطر خواہ کمی نہ لانے کا اعتراف کرتاہوں۔چیف جسٹس کو ازخود نوٹس لینے کا اختیار ہے اور یہی سپریم کورٹ کا فیصلہ بھی ہے ۔تعیناتی کے ایک سال میں سپریم کورٹ نے ریکارڈ 23 ہزارمقدمات نمٹائے۔جبکہ اٹارنی جنرل پاکستان منصور عثمان اعوان نے خطاب میںکہاہے کہ آرٹیکل 184/3 کے تحت سیاسی اور ہائی پروفائل کیسز کی وجہ سے عام سائلین کے کیسز متاثر ہوتے ہیں،184/3 کے مقدمات غیر معمولی اور عوامی مفاد اور بنیادی حقوق کے معاملات میں ہونے چاہییں۔ جبکہ پاکستان بار کونسل کے وائس چیئرمین سپریم کورٹ میں مقدمات میں مختصر فیصلہ کرنے کی ایک نئی روش چل پڑی ہے اکثر مقدمات میں بروقت تفصیلی فیصلے جاری نہیں ہوتے یہاں تک کہ کچھ ججز ریٹائرڈ بھی ہوجاتے ہیںکچھ کیسسز میں لارجر بینچ بننے کا حکم ہوا لیکن آج تک وہ لارجر بینچ تشکیل نہیں دئے جاسکے۔جبکہ صدر سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن آئین 90 دن میں انتخابات کرانے کاحکم دیتاہے۔جان بوجھ کرآئین وقانون سے انحراف کیاجارہاہے۔وکلاءبرادری آئین کے محافظ ہیں اپناکرداراداکرتے رہیں گے۔سپریم کورٹ میں نئی عدالتی سال کاآغاز ہوگیاہے جس کے لیے ہرسال تقریب کاانعقاد کیاجاتاہے اس تقریب میں چیف جسٹس پاکستان ،ججزصاحبان ،وکلاءبرادری اور دیگرافراد شرکت کرتے ہیں۔چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے نئی عدالتی سال کی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کہاکہ بطور چیف جسٹس آخری مرتبہ نئے عدالتء سال کی تقریب سے خطاب کر رہا ہوں گزشتہ سال عدالت کی ایک سالہ کارکردگی پر روشنی ڈالی تھی تعیناتی کے ایک سال میں سپریم کورٹ نے ریکارڈ 23 ہزار مقدمات نمٹائے اس سے پہلے ایک سال میں نمٹائے گئے مقدمات کی زیادہ سے زیادہ تعداد 18 ہزار تھی کوشش تھی کہ زیرالتوا مقدمات 50 ہزار سے کم ہوسکیںزیرالتوا مقدمات کی تعداد میں دو ہزار کی کمی ہی کر سکے فروری 2023 میں سپریم کورٹ کے سامنے کئی آئینی مقدمات آئے آئینی ایشوز میں الجھا کر عدالت کا امتحان لیا گیا سخت امتحان اور ماحول کا کئی مرتبہ عدالت خود شکار بنی جو واقعات پیش آئے انہیں دہرانا نہیں چاہتا لیکن اس سے عدالتئ کارکردگی متاثر ہوئی تمام واقعات آڈیو لیکس کیس میں اپنے فیصلے کا حصہ بنائے ہیںچیف جسٹس کی جانب سے جسٹس قاضی فائز عیسی کیلئے نیک تمناوں کا اظہارتمام ساتھی ججوں کا میرے ساتھ برتاﺅ بہت اچھارہا، جہاں آزاد دماغ موجود ہوں وہاں اختلاف ہوتا ہے، میرے دائیں قاضی فائز عیٰسی ہیں جو بہت اچھے انسان ہیں، میری اور ان کی اپروچ الگ ہے ،صحافی معاشرے کی کان اور آنکھ ہوتے ہیں، صحافیوں سے توقع ہوتی ہے وہ درست رپورٹنگ کریں گے، جہاں پر کوئی غلطی ہوئی اسے ہم نے اگنور کیا، سپریم کورٹ کی جانب سے ڈیمز فنڈ قائم کیا گیا ، ڈیمز فنڈ میں اگست 2023 میں چار لاکھ روپے کا اضافہ ہوا ، اگست میں بھی فنڈز میں رقم آنے کا مطلب عوام کا سپریم کورٹ پر اعتماد ہے ،ڈیمز فنڈ کے اس وقت 18.6 ارب روپے نیشنل بنک کے ذریعے سٹیٹ بنک میں انویسٹ کیے گئے ہیں، چیف جسٹس ڈیمز فنڈ کی نگرانی سپریم کورٹ کا پانچ رکنی بنچ کر رہا ہے۔انھوں نے مزیدکہاکہ خواتین کوبھی معاشرے میں اہم مقام دلانے کے لیے کوششیں کی گئی ہیں دوخواتین ججزسپریم کورٹ میں موجودہیں جبکہ سپریم کورٹ سمیت کئی اہم عہدوں پرتعینات ہیں اور بہت محنت سے کام کررہی ہیں۔ اٹارنی جنرل پاکستان منصور عثمان اعوان نے اپنے خطاب میں کہاکہ کیسز کی تعداد بڑھ رہی ہے، کیسز کم کرنے کی کاوشوں کو سراہتے ہیں تاہم ابھی بھی بہت کام کرنے کی ضرورت ہے، عام سائلین کے مقدمات کے فیصلے بلاتاخیر ہونے چاہییں، اس مقصد کے لیے سپریم کورٹ کو اپنی توانائیاں 185 کے تحت اپنے کیسز کو سننے میں صرف کرنی چاہییں،آرٹیکل 184/3 کے تحت سیاسی اور ہائی پروفائل کیسز کی وجہ سے عام سائلین کے کیسز متاثر ہوتے ہیں،184/3 کے مقدمات غیر معمولی اور عوامی مفاد اور بنیادی حقوق کے معاملات میں ہونے چاہییں،آرٹیکل 184/3 کا اختیار استعمال کرتے ہوئے عدالت کو اختیارات کی آئینی تقسیم کا خیال رکھنا چاہیے، جب اس اصول کا خیال نہیں رکھا جاتا تو عدالت پارلیمنٹ اور ایگزیکٹو کی ڈومین میں تجاوز کرتی ہے،اٹارنی جنرل آرٹیکل 184/3 کے بلااحتئاط استعمال سے کورٹ کا تشخض متاثر ہوتا ہے،سپریم کورٹ کے جوڈیشل اور انتظامی معاملات میں شفافیت کی ضرورت ہے ، ججز کی تعیناتیاں ،بینچز کی تشکیل چیف جسٹس کرتے ہیں، یہ اختیار چیف جسٹس کو متازعہ معاملات کے فیصلوں میں غیر متناسب کنٹرول دیتا ہے،عام مقدمات کے لیے بینچز کی تشکیل اور ججز تعیناتیوں کی بازگشت پارلیمان میں بھی سنی گئی، اس عدالت نے متعدد مواقع پر صوابدیدی اختیار ات میں شفافیت پر زور دیا ہے، کوئی وجہ نہیں کہ سپریم کورٹ اس اصول کا خود پر بھی اطلاق کرے،نئے عدالتی سال کے ساتھ ساتھ ہم جوڈیشل لیڈر شپ کی تبدیلی کے مرحلے سے بھی گزر رہے ہیں، جسٹس قاضی فائز عیسی بطور چیف جسٹس عہدہ سنبھالنے کے قریب ہیں، مجھے یقین ہے کہ جسٹس قاضی فائز عیسی کی لیڈرشپ میں ہم شفافیت، مستعدی اور عوامی اعتماد کے نئے دور کی جانب بڑھیں گے۔