کراچی (کامرس رپورٹر ) قائم مقام صدر ایف پی سی سی آئی شبیر منشا ء نے پاکستان کے لیے بین الاقوامی مالیاتی فنڈ کی ایکسٹنڈڈ فنڈفیسلیٹی (EFF) پروگرام کے یقینی طور پر دوبارہ شروع ہونے کا خیرمقدم کیا ہے؛کیونکہ یہ ایکسچینج ریٹ کے استحکام کے ساتھ ساتھ عالمی بینک اور ایشیائی ترقیاتی بینک (ADB) کی جانب سے مالی سال2022-23 کے لیے بڑے ایکسٹرنل فنڈنگ پروگراموں کی راہ ہموار کرے گا۔ بشرطیکہ حکومت اچھے بجٹ اور مالیاتی انتظام کے ذریعے افراط زر اور شرح سود کو کم کرنے کے لیے اس موقع کا بھر پور فائدہ اٹھانے میں کامیاب ہو۔ قائم مقام صدرایف پی سی سی آئی نے وضاحت کی کہ حقیقی موثر شرح تبا دلہ (REER) ظاہر کرتا ہے کہ افواہوں اور لین دین کے مقاصد کے لیے ڈالر کے زرمبادلہ کی شدید کمی کی وجہ سے روپے کی قیمت 5سے7 فیصد تک اس کی اصل ویلیو سے کم ہے اور پاکستانی روپیہ ایک سے دو مہینوں میں اپنے حقیقی ایکسچینج ریٹ تک مضبوط ہو سکتا ہے؛ تاہم یہ عمل مارکیٹ میکانزم کے ذریعے ایک پائیدار انداز میں ہونا چاہیے۔ انہوں نے مزید کہا کہ ایکسچینج ریٹ میں تباہ کن اتار چڑھاؤ پہلے ہی معیشت کو شدید نقصان پہنچا چکا ہے اور ہمیں ان افواہوں کو ختم کرنے کی ضرورت ہے جو کہ غیر ملکی کرنسی کی مارکیٹ میں بے یقینی کی صورتحال کو جنم دیتی ہیں۔ شبیر منشا ء نے اس بات پر زور دیا کہ 13.75 فیصد شرح سود معیشت کو کسی بھی معنی خیز شرح کے ساتھ ترقی نہیں کرنے دے گی اور جہاں تک برآمدات کا تعلق ہے، بجلی اور گیس کی نا قابل برداشت قیمتوں نے ہماری صنعتو ں کو پہلے ہی غیر مسابقتی بنا دیا ہے۔ اس کے علاوہ یہ افواہیں بھی زیر گردش ہیں کہ شرح سود میں مزید اضافہ کیا جا سکتا ہے۔ انہوں نے مطا لبہ کیا کہ حکومت کو کاروباری، صنعتی اورتا جر برادری کے اسٹیک ہولڈرز سے لازماً مشورہ کرنا چاہیے کہ شرح سود کو کیسے اور کب نیچے لایا جا سکتا ہے؛ تاکہ کاروباری ادارے اس کے پیش نظر اپنے اگلے آنے والے سال کی منصوبہ بندی کر سکیں۔ شبیر منشا نے اطمینان کا اظہار کرتے ہو ئے کہا کہ تیل کی بین الاقوامی قیمتیں 7 سے 8 فیصد تک گر کر تقریباً 123 ڈالر فی بیرل کی بلند ترین سطح سے 110 ڈالر فی بیرل سے نیچے آگئی ہیں؛جس کا فائدہ مرحلہ وار کمرشل اور عام صارفین تک پہنچایا جانا چاہیے۔ شبیر منشاء نے اپنی اس امید پر بھی زور دیا ہے کہ چین کے کمرشل بینکوں سے آسان شرائط پر 2.3 ارب ڈالر کے قرضے غیر ملکی زرمبادلہ کے کم ہوتے ذخائر میں اضافہ کریں گے اور مزید برآں، چند مزید چینی قرضے جو کہ جلد ہی قابل ادا ہونے والے ہیں بھی چین کی جانب سے ری رول کر دیئے جا ئیں گے۔؛ جس کے نتیجے میں پاکستان کے پاس تقریباً دو ماہ کے درآمدی بل کے مساوی زرمبادلہ کے ذخائر موجو دہوں گے۔ شبیر منشاء نے بتایا کہ کرنٹ اکاؤنٹ خسارے کو 10 سے 12 بلین ڈالر تک کنٹرول کرنا ہی ہمارا سب سے بڑا معاشی مقصد ہونا چا ہیے؛ جو کہ اس سال 20 ارب ڈالر سے بھی متجاوز ہو گا اور یہ جی ڈی پی کے 5 فیصد سے زائد کی شرح ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ پہلے سے موجودہ ٹیکس دہندگان کو مزید نچوڑنا، کمر شل سرگرمیوں کو محدود کرنا اورآئی ایم ایف کے دباؤ میں پیٹرولیم ڈویلپمنٹ لیوی (PDL) کو دوبارہ نافذ کرنا پاکستان کو معاشی طور پر کو ئی فائد ہ نہی پہنچائے گا۔ شبیر منشاء نے اس بات پر بھی زور دیا ہے کہ پی ڈی ایل کا دوبارہ نفاذ اگرچہ مرحلہ وار طریقے سے کرنے کی شنید ہے لیکن پھر بھی یہ اقدام کاروبار کرنے کی لاگت کو مکمل طور پر نا قابل برداشت بنا دے گا اور اس کے دورس اثرات افراط زر کو مزید ہوا دیں گے۔ انہوں نے مطالبہ کیا کہ حکومت تاجر برادری کو پی ڈی ایل پر آئی ایم ایف کے ساتھ اپنی انڈرا سٹینڈنگ پر اعتماد میں لے۔شبیر منشاء کے مطا بق آئندہ مالی سال کے دوران تاجر برادری کی تشویش کا ایک اور بہت بڑا پہلو یہ ہے کہ حکومت نے آئی ایم ایف کے ساتھ 436 ارب روپے کے مزید ٹیکس لگانے کا وعدہ کر لیا ہے او ر مطالبہ کیا کہ حکومت یہ واضح کرے کہ وہ کس طرح اور کن سیکٹرز پر اضافی ٹیکس عائد کرے گی۔قائم مقام صدر ایف پی سی سی آئی نے بجلی کے بیس ٹیرف میں بڑے اضافے کے نفاذ کے خدوخال پر اسٹیک ہولڈرز کے ساتھ مشاورتی عمل شروع کرنے کی ضرورت پر بھی زور دیا ہے؛کیو نکہ بجلی کی نئی قیمتیں، پی ڈی ایل کا نفاذ اور نئے و اضافی ٹیکسوں کی وصولی مجموعی طور پر کاروباری ماحول کو مکمل تباہ کر دے گی اور صنعتوں کا پہیہ رک جائے گا۔