کراچی (نمائندہ خصوصی ) پاک سرزمین پارٹی کے چیئرمین سید مصطفیٰ کمال نے کہا ہے کہ جہاں آئی ایم ایف، چین، سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات سمیت تمام ملکوں سے پیسے لاکر ملک چلانے کی کوشش کی جارہی ہے وہاں کراچی جو ملک کا معاشی انجن ہے وہاں امن و امان خراب کر کے اربوں ڈالر ضائع کرنے کی سازش کی جا رہی ہے۔ کراچی کا ایک بلڈر مناف عطارا دہشتگرد ٹی ایل پی کا فائنانسیر ہے جو خود کو ایک ادارے کے اہم شخصیت کا فرنٹ مین ظاہر کر کے لوگوں کو مرعوب کرتا پھر رہا ہے۔ قومی سلامتی کے لیے اس اہم شخص کا نام نہیں لے رہے۔ چیف آف آرمی سٹاف جنرقمر باجوہ اس سازش کا پردہ چاک کریں اور پاک سر زمین پارٹی کے مرکزی الیکشن آفس پر فائرنگ اور اس کے بعد کے واقعات کا نوٹس لیں۔ ایسے ملک نہیں چل سکتا۔ وفاقی اور صوبائی حکومت کو آواز نہیں دے سکتے کیونکہ انہوں نے داد رسی نہیں کی بلکہ صوبائی حکومت کے ماتحت پولیس اب تک جائے وقوعہ پر ہی نہیں آئی، گولیوں کے خول نہیں لیئے، کوئی فرانزک ٹیسٹ نہیں کرایا گیا اور نہ ہم سے رابطہ کیا۔ پیپلز پارٹی کی سندھ حکومت کی ماتحت پولیس نے ہمارے شہید ساتھی سیف الدین کو راہگیر بنا دیا، ہم ہی شہید اور زخمی ہوئے اور ہماری ہی ایف آئی آر پولیس نے خود سے بغیر تحقیقات کے کاٹ دی۔ میں کسی پولنگ اسٹیشن میں داخل نہیں ہوا، ہر پولنگ اسٹیشن میں کیمرے نصب تھے، پریزائڈنگ افسران ویڈیوز بنا رہے تھے، اگر میری کسی پولنگ اسٹیشن میں داخل ہونے کی کوئی ویڈیو ہے تو سامنے لائی جائے۔ ایف آئی آر میں دو طرفہ فائرنگ کا بتایا گیا ہے، میرے کسی کارکن کے پاس اسلحہ تھا تو ویڈیوز میں دکھایا جائے جیسا دہشتگرد تحریک لبیک پاکستان کے کارکنان کی ویڈیوز فائرنگ کرتے ہوئے موجود ہیں۔ حضرت محمد ﷺ کا نام لے کر کسی کو دہشتگردی نہیں کرنے دیں گے۔ گولی بھی لگی تو یقین ہے کہ رحمت اللعالمین محمدﷺ شفاعت کریں گے اور جنہوں نے ہم پر گولیاں چلائیں یا اس ظلم کے حمایتی بنے وہ نبی کریم محمدﷺ کے دستخط سے ہی جہنم میں جائیں گے۔ پاک سرزمین پارٹی تمام مظالم کے بعد بھی پر امن رہی اپنے شہید ساتھی کو دفنا دیا، زخمیوں کا علاج کرا دیا لیکن کسی کو ایک پتھر تک نہیں مارا، کسی کے دفتر پر حملہ آور نہیں ہوئے تو اسے ہماری کمزوری سمجھ لیا گیا ہے۔ جنگ کرنا ہمارا مسئلہ نہیں بلکہ مسئلہ یہ ہے ہم جنگ کرنا نہیں چاہتے، ہم حالات کو اس طرف لے جانا ہی نہیں چاہتے جہاں شہر سے کوئی منفی خبر چلے، ہمیں دیوار سے لگا کر حالات کو اس نہج پر نہیں پہنچایا جائے۔ ڈپٹی کمشنر اور اسسٹنٹ کمشنرز نے پاک سرزمین پارٹی سمیت پاکستان تحریک انصاف اور جماعت اسلامی کے بلدیاتی نمائندوں کے سینکڑوں فارم بغیر وجہ کے مسترد کر دیئے جبکہ پیپلز پارٹی اور ایم کیو ایم کا ایک فارم مسترد نہیں ہوا۔ الیکشن کمیشن صوبائی حکومت کا ذاتی ملازم بنا ہوا ہے۔ کبھی نئی فہرست لگا دی جاتی ہے اور کبھی پرانی اور ہمیں اپیل سے روکنے کے لیے مسترد شدہ فارم کے سرٹیفیکیٹ بھی جاری نہیں کیئے جا رہے۔ ان خیالات کا اظہار انہوں نے پاکستان ہاؤس میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے کیا۔ اس موقع پر شہید سیف الدین کے بھائی موجود تھے، جبکہ سابق رکن صوبائی اسمبلی و جوائنٹ سیکریٹری پی ایس پی افتخار عالم نے سینے اور بازو پر دو گولیوں کے زخم دکھائے، مصطفیٰ کمال کے کوآرڈینیٹر زیشان نے گٹھنے سے پار ہونے والی گولیوں کے زخم اور پاکستان ہاؤس کے سیکیورٹی انچارج مانی نے کندھے سے پار ہونے والی گولی کا زخم میڈیا کو دکھایا نیز جن لڑکوں کو پولیس نے بعد میں گرفتار کر کے دہشتگردی کا مقدمہ بنا دیا ان کے اہل خانہ بھی موجود تھے۔ سید مصطفیٰ کمال نے مزید کہا کہ ظلم کی انتہا ہوگئی، بلدیاتی انتخابات میں پھر مرنے چلے جائیں، این اے 240 میں یہ پیغام دیا گیا ہے کہ کراچی میں بغیر اسلحے، پریزائڈنگ افسران کی ملی بھگت اور دھاندلی کے سیاست ممکن نہیں۔ اس پر نام نہاد مفتی منیب الرحمٰن ہم سے تعزیت کرنے کے بجائے وہ اپنے بگڑے بچوں کے دفاع میں ہم پر ہی طنز کے تیر چلانے لگے۔ سینکڑوں اہل سنت کے علماء کرام نے رابطے کر کے مفتی منیب الرحمٰن کے حوالے سے چیزیں فراہم کی ہیں۔ مفتی منیب الرحمٰن پورے اہل سنت مسلک کے ترجمان نہیں، انکے خط کا جواب اب ہم بھی خط سے دیں گے جس کے بعد مفتی منیب عوام کو منہ دکھانے لائق نہیں رہیں گے۔ تمام مسالک کی عزت کرتا ہوں، خود بھی اہلسنت سے تعلق ہے لیکن حضور ﷺ کے نام پر دہشتگردی کرنے والوں اور ان کے سرپرستوں کو معاف نہیں کر سکتے۔ یہ ہر مسلمان کے ایمان کا تقاضا ہے۔