نیویارک(نیوز ڈیسک/نیٹ نیوز)
مہنگائی کی شرح میں کمی کی دوسری وجہ کرنسی ایکسچینج ریٹ مستحکم ہونا ہے کیونکہ ڈالر کے مقابلے میں افغانی پچھلے سال کے مقابلے میں مزید مستحکم ہوگئی ہے۔رپورٹ کے مطابق افغانستان کے ہر تین خاندانوں میں سے دو کو معاشی چیلنجز کا سامنا ہے اور اس سے نمٹنے کے لیے خاندانوں نے نوجوانوں اور خواتین کو ملازمت دینے کی کوشش کی ہے۔ڈاکٹر ناصر اقبال پاکستان انسٹی ٹیوٹ آف ڈیویلپمنٹ اکنامکس کے پروفیسر ہیں اور اس خطے کی معاشی صورت حال پر گہری نظر رکھتے ہیں۔ انہوں نے بین الاقوامی ذرائع ابلاغ کو بتایا کہ جب بھی کوئی ملک ابتدائی معاشی مسائل کے حل کے لیے کام کرنا شروع کرتا ہے، تو اس کے بنیادی اشاریوں میں بہت جلد بحالی نظر آتی ہے اور یہی حال آج کل افغانستان کا ہے۔ان کا کہنا تھا کہ افغانستان میں نئی حکومت قائم ہوئی ہے اور چین سمیت دنیا کے دیگر ممالک ان کے معاشی مسائل کے حل میں مدد بھی کر رہے تو یہی وجہ ہے کہ وہاں پر تمام معاشی اکائیوں میں مثبت رجحان نظر آرہا ہے۔ڈاکٹر ناصر کے مطابق: ’ایک وجہ یہ بھی ہے کہ زیادہ تر چیزیں افغانستان میں مقامی سطح پر پیدا ہوتی ہیں اور ملک انہی پر انحصار کرتا ہے تو ڈیمانڈ اور سپلائی میں فرق زیادہ نہیں آتا اور دوسری وجہ ڈالر کی موجودگی ہے اور یہی حال پاکستان میں بھی ہے۔‘ان کا کہنا تھا کہ پاکستان میں ڈالر کی کمی کی وجہ سے روپے پر دباؤ بڑھا اور نتیجتاً وہ کمزور ہوگیا۔ اس کے علاوہ پاکستان کا زیادہ تر انحصار درآمدات پر ہے تو کرنسی مزید کمزور ہوگئی۔بقول ڈاکٹر ناصر، افغانستان کے مقابلے میں پاکستان میں مہنگائی کی شرح میں اضافے کی دو بنیادی وجوہات ہیں، جن میں سے ایک تو معاشی بحران ہے، جو پوری دنیا میں ہے جبکہ دوسری وجہ سیاسی بحران اور انتظامی معاملات میں کمزوری ہے۔انہوں نے بتایا، ’انتظامی کمزوری یہ ہے کہ ہم ڈالر کی سمگلنگ روکنے میں ناکام ہیں اور یہاں جو انرجی ٹیرف سٹرکچر بنایا گیا ہے، اس کو ہم ٹھیک نہیں کر سکتے کیونکہ ہم نے انرجی کے حل کے لیے مختلف کمپنیوں سے معاہدے کیے ہیں لیکن ہم ان معاہدوں کو ریوائز نہیں کر سکتے۔‘ان کا مزید کہنا تھا کہ ملک کے اندر ایک سیاسی بحران چل رہا ہے، جو ہر کسی کو نظر آتا ہے اور اسی وجہ سے پاکستانی روپیہ مستحکم نہیں ہے اور اسی بحران کی وجہ سے صنعت کار سرمایہ کاری کرنے سے کتراتے ہیں۔ورلڈ بینک کی رپورٹ میں کرنسی کے انڈیکیٹر کو تفصیل سے بیان کیا گیا ہے، جس کے مطابق رواں سال کی ابتدا سے اب تک افغانی بڑی کرنسیوں کے مقابلے میں مستحکم ہوگئی ہے۔ایرانی کرنسی تومن کے مقابلے میں افغانی 41 فیصد سے زیادہ مستحکم ہوگئی ہے۔ اسی طرح پاکستانی روپے کے مقابلے میں افغانی رواں سال کے اوائل سے اب تک 29 فیصد سے زیادہ مستحکم ہوئی ہے جبکہ ڈالر کے مقابلے میں افغانی سات فیصد سے زیادہ مستحکم ہوگئی ہے۔ چین کے کرنسی ین کے مقابلے میں افغانی چھ فیصد اور یورو کے مقابلے میں افغانی تقریباً پانچ فیصد مستحکم ہوگئی ہے۔
اگست 2021 میں ڈالر کے مقابلے میں افغانی 24 اگست 2023 کو تین فیصد سے زیادہ مضبوط ہوئی ہے۔ طالبان کے کابل میں اقتدار میں آنے کے بعد سے ایک امریکی ڈالر 80 افغانی کے برابر تھا لیکن ابتدائی چند دنوں میں افغانی کی قدر گرنا شروع ہوئی اور ایک امریکی ڈالر دسمبر 2021 میں 130 افغانی تک پہنچ گیا تھا۔تاہم اس کے بعد سے افغانی مستحکم ہونا شروع ہوئی اور افغانستان کی کرنسی کی قدر دنیا کی مضبوط کرنسیوں کے مقابلے میں بھی بڑھ گئی۔
کرنسی کے استحکام کے حوالے سے رپورٹ میں وجہ یہ بتائی گئی ہے کہ اندرون ملک خریدو فروخت میں ڈالر کے استعمال پر پابندی اس کی ایک وجہ ہے۔رپورٹ کے مطابق دوسری وجہ ہے کہ 2023 میں اقوام متحدہ کی جانب سے افغانستان کو تقریباً ایک ارب ڈالر دیے گئے ہیں جبکہ 2022 میں تقریباً دو ارب ڈالر دیے گئے تھے، جس کی وجہ سے مارکیٹ میں ڈالر کی موجودگی کی وجہ سے افغانی مستحکم ہوگئی ہے۔باقی کرنسیوں کے مقابلے میں افغانی کے مستحکم ہونے کے حوالے سے ڈاکٹر ناصر نے بتایا کہ جب تک افغانستان کو بیرون ملک سے امداد مل رہی ہے تو وہاں کی کرنسی مستحکم رہے گی جبکہ افغانستان نے بڑی حد تک اپنے اخراجات بھی کنٹرول کیے ہیں۔انہوں نے بتایا، ’پاکستان میں ایسا نہیں ہو رہا۔ ہمیں نہ تو بیرونی امداد مل رہی ہے اور نہ ہم اپنے اخراجات کنٹرول کر رہے ہیں اور اسی وجہ سے اگلے دو سالوں میں افغانستان میں مزید استحکام نظر آئے گا جبکہ پاکستان میں ایسا کچھ نظر نہیں آرہا ہے۔‘پاکستان کے نگران وزیر اعظم انوار الحق کاکڑ نے حالیہ دنوں میں ایک بیان میں کہا تھا کہ ڈالر کی سمگلنگ کی وجہ سے مہنگائی کی شرح میں اضافہ ہو رہا ہے اور اسی وجہ سے معاشی بحران پیدا ہوگیا ہے۔ڈاکٹر ناصر کے مطابق اگر گذشتہ حکومتوں میں دیکھا جائے تو پاکستان مسلم لیگ ن سمیت باقی حکومتوں میں کسی نہ کسی شکل میں ڈالر باہر سے آرہے تھے، چاہے قرضے ہوں یا کسی اور مد میں اور اسی وجہ سے حکومت مارکیٹ میں ڈالر ڈال کر پاکستانی روپے کو مصنوعی طریقے سے کنٹرول کرتی تھی۔خان افضل ہڈاوال افغانستان کے سینٹرل بینک کے سابق گورنر ہیں اور افغانستان کی معیشت کا کافی تجربہ رکھتے ہیں۔ انہوں نے نومبر 2022 میں انڈپینڈنٹ اردو کو ایک خصوصی انٹرویو میں بتایا تھا کہ افغان کرنسی کا استحکام قدرتی نہیں بلکہ مصنوعی ہے اور یہ سلسلہ افغانستان میں بہت پہلے سے چلا آ رہا ہے۔انہوں نے بتایا تھا کہ افغانسان میں سینٹرل بینک غیر ملکی کرنسی کی نیلامی کرتا ہے اور لوکل کرنسی جمع کرتا ہے جس کی وجہ سے مقامی کرنسی مضبوط ہوجاتی ہےانہوں نے دیگر ممالک کے ساتھ تقابلی جائزہ کے بارے میں بتاتے ہوئے کہا تھا کہ ’پاکستان، انڈیا سمیت دیگر ممالک میں صرف اس ملک کی اپنی کرنسی چلتی ہے لیکن افغانستان میں ایسا نہیں ہے اور وہاں افغانی کے علاوہ آپ پاکستانی روپیہ، ایرانی تمن یا ڈالر میں بھی خریدو فروخت کرسکتے ہیں۔‘خان افضل نے بتایا کہ اسی وجہ سے افغانی کی قدر اتنی نہیں ہے اور اسی وجہ سے لوگ زیادہ تر نہیں چاہتے کہ وہ افغانی کو بطور سیونگ رکھیں بلکہ وہ دیگر ممالک کی کرنسیاں رکھتے اور خریدتے ہیں۔انہوں نے بتایا تھا کہ ’جب مارکیٹ میں لوکل کرنسی نہ ہو اور باقی کرنسی مارکیٹ میں آرہی ہو اور اس میں خریدو فروخت بھی کی جاتی ہو تو مقامی کرنسی کی قدر بڑھ جاتی ہے کیونکہ ان کے خریدار کم ہوتے ہیں اور یہ وہی ڈیمانڈ اور سپلائی کا فارمولہ ہے کہ جب ڈیمانڈ کم ہو تو قیمت بھی کم ہوگی۔‘خان افضل سے جب پوچھا گیا کہ افغان زیادہ تر ڈالر میں تجارت نہیں کرتے تو کیا مقامی کرنسی کی مستحکم ہونے کی ایک وجہ یہ تو نہیں ہے، جس کے جواب میں ان کا کہنا تھا کہ نہیں ایسا نہیں ہے کیونکہ اس صورت حال سے غیرملکی ذخائر پر اثر پڑتا ہے۔انہوں نے بتایا تھا: ’اگر افغانستان اور پاکستان کے مابین پاکستانی روپے میں تجارت ہوتی ہے تو اس کا اثر دونوں ممالک کے غیرملکی کرنسی کے ذخائر پر تو پڑتا ہے لیکن اس کا کرنسی کی مستحکم ہونے سے تعلق نہیں ہے۔‘ورلڈ بینک کی رپورٹ میں ایک اور مثبت انڈیکیٹر کی جانب اشارہ کرتے ہوئے لکھا گیا ہے کہ گذشتہ سال ہفتے میں 30 ہزار افغانی نکالنے کے مقابلے میں اب انفرادی شخص کو ہفتے میں 50 ہزار افغانی نکالنے کی اجازت مل گئی ہے جبکہ کمپنیوں کو گذشتہ سال 25 لاکھ ماہانہ کی حد تک افغانی نکالنے کے مقابلے میں اب 40 لاکھ افغانی نکالنے کی اجازت مل گئی ہے۔رپورٹ میں لکھا گیا ہے کہ ڈیپازٹ کی حد میں یہ اضافہ ایک مثبت اقدام ہے۔ اس کے علاوہ رپورٹ کے لیے سروے میں شامل 1200 مرد اور 340 خواتین سرکاری ملازمین میں سے 90 فیصد نے بتایا ہے کہ ان کو تنخواہ وقت پر بینک کے ذریعے ملتی ہے تاہم ان میں سے 44 فیصد کو رقم نکالنے میں مشکلات درپیش ہے لیکن رواں سال جون کے مقابلے میں ان مشکلات میں بھی کمی دیکھی گئی ہے۔ورلڈ بینک نے اس رپورٹ میں افغانستان میں ملازمت کے مواقعوں پر بھی بات کی ہے۔ اس رپورٹ کے مطابق سکلڈ اور اَن سکلڈ ملازمتوں میں اضافہ دیکھنے کو ملا ہے اور خاندانوں نے معاشی بحران کے حل کے لیے نوجوانوں اور خواتین کو کام پر لگایا ہے۔اسی طرح رواں سال کے پہلے پانچ مہینوں میں ملک کے زر مبادلہ میں پچھلے سال کے مقابلے میں آٹھ فیصد اضافہ دیکھنے کو ملا ہے اور رواں سال کے ابتدائی پانچ مہینوں میں ملک کی آمدنی 76 ارب افغانی تک پہنچ گئی ہے اور اس میں سب سے بڑا حصہ کسٹم ڈیوٹیز اور ٹیکسز کی مد میں ہے جو پچھلے سال کے مقابلے میں 13 فیصد بڑھ گئی ہیں۔اس آمدنی میں رپورٹ کے مطابق 60 فیصد تک حصہ کسٹم ڈیپارٹمنٹ کی جانب سے ڈالا گیا ہے اور یہ ڈیوٹی ٹیکسز ایران اور پاکستان کے ساتھ تجارت کی مد میں افغانستان کو ملے ہیں۔درآمدات اور برآمدات کی بات کی جائے تو رپورٹ کے مطابق گذشتہ سال کے ابتدائی پانچ مہینوں کے مقابلے میں رواں سال کے پانچ مہینوں میں درآمدات میں پانچ فیصد اضافہ ہوا ہے اور سب سے زیادہ اضافہ ٹیکسٹائل کی صنعت میں دیکھا گیا ہے۔پاکستان کے ساتھ درآمدات میں تین فیصد کمی آئی ہے اور اس کی بڑی وجہ خوراک اور کوئلے کی درآمدات میں کمی ہے۔اسی طرح برآمدات کی بات کی جائے تو گذشتہ سال کے مقابلے میں رواں سال کے ابتدائی پانچ مہینوں میں برآمدات میں 32 فیصد اضافہ ہوا ہے۔ سب سے زیادہ برآمدات ایران (21 فیصد)، چین (18 فیصد)، پاکستان (17 فیصد) اور متحدہ عرب امارات (14) فیصد رہا ہے۔افغانستان کی حکومت نے ملک کی معاشی صورت حال کے بارے میں عالمی بینک کی حالیہ رپورٹ کا خیرمقدم کرتے ہوئے اس میں حقائق کو درست انداز میں پیش کرنے کے عمل کو سراہا ہے۔افغان حکومت کے اقتصادی امور دفتر کے نائب وزیر اعظم کی طرف سے جاری ایک بیان میں کہا گیا کہ حکومت کا ماننا ہے کہ عالمی برادری کا مثبت کردار، پابندیوں کا خاتمہ اور منجمد اثاثوں کی بحالی افغانستان کی جامع معاشی ترقی سمیت دوسرے شعبوں میں بہتری لانے کا سبب بنیں گے۔بیان میں بین الاقوامی اداروں پر زور دیا گیا ہے کہ ’افغانستان کے حالات کو شفاف انداز میں پیش کیا جائے تاکہ دنیا کو ملک کے حقیقی حالات اور ترقی کے بارے میں معلوم ہو سکے۔‘مزید برآن افغان حکومت نے عالمی بینک سے درخواست کی ہے کہ ان منصوبوں کو مکمل کیا جائے، جن کے لیے فنڈ فراہم کیے گئے لیکن یہ منصوبے مکمل نہیں ہوئے۔