تیانجن (شِنہوا) چین کی شمالی تیانجن میونسپلٹی میں تیانجن یونیورسٹی کے پاکستانی ڈاکٹریٹ کے طالب علم کاشان خان نے سونے سے پہلے اپنے موبائل فون سے ایک شاپنگ ایپ کے ذریعے کھانا پکانے کے لیے سبزیوں اور گوشت کا آرڈر دیا،اور وہ یہ چیزیں اگلے روزاپنے ہاسٹل کو جاتے ہوئے اٹھا لے گا۔
کاشان کا کہنا ہے کہ ” چین میں آن لائن شاپنگ حقیقت میں آسان ہے۔ میرے پاس شاپنگ مالز یا بازار جانے کا وقت نہیں ہوتا۔ میں اپنی ضرورت کی ہر چیز آن لائن خرید سکتا ہوں، یہاں تک کہ اپنی گرل فرینڈ کے لیے پھول بھی،” آن لائن شاپنگ سے سائنسی تحقیق میں مصروف کاشان کا کافی سارا وقت بچ جاتا ہے۔
چین کی ڈیجیٹل تجارت نے حالیہ برسوں میں بھرپور ترقی کی ہے۔ چائنہ اکیڈمی آف انفارمیشن اینڈ کمیونیکیشن ٹیکنالوجی کے جاری کردہ اعداد و شمار کے مطابق، ملک کی ڈیجیٹل اکانومی کے حجم میں 41کھرب ڈالر کا اضافہ ہوا،اور اس کی 2016 سے 2022 تک اوسط سالانہ کمپاؤنڈ نمو 14.2 فیصد رہی۔
کاشان نے کہا "میں چین میں 7 سال سے مقیم ہوں۔ میں نے خود چین میں ای کامرس، موبائل ادائیگی اور مصنوعی ذہانت کی تیزرفتار ترقی دیکھی ہے۔ مجھے واقعی امید ہے کہ پاکستان چین کی طرح ڈیجیٹل معیشت کو فروغ دے گا اور میرے آبائی ملک کے لوگ اس اکانومی موڈ سے مستفید ہو سکتے ہیں۔ ”
دیکھا جائے توکاشان کی خواہش پوری ہوگئی ہے، کیونکہ چین کی بڑھتی ہوئی ڈیجیٹل تجارت نے کاروباری مواقع فراہم کیے ہیں اور بیلٹ اینڈ روڈ کے شراکتی ممالک کے لیے نئی امید پیدا کی ہے۔
ڈیجیٹل تبدیلی کے رجحانات کو برقرار رکھنے کے لیے، ڈیجیٹل شاہراہ ریشم کا آغاز کیا گیا۔ یہ بیلٹ اینڈ روڈ منصوبے (بی آر آئی ) کی ٹیکنالوجی کی بے پناہ وسعت ہے جو سمندر کے فرش سے لے کر بیرونی خلا تک پھیلی ہوئی ہے جو مصنوعی ذہانت، بگ ڈیٹا ایپلی کیشنز اور دیگر اسٹریٹجک انٹرنیٹ سلیوشنزتک رسائی یقینی بناتی ہے۔
نومبر 2022 تک، چین نے 16 ممالک کے ساتھ ڈیجیٹل شاہراہ ریشم تعاون کامیکنزم قائم کرتے ہوئے پاکستان سمیت 26 ممالک کے ساتھ شاہراہ ریشم ای کامرس دو طرفہ تعاون کےمیکنزم کو آگے بڑھایاہے۔
مصنوعی ذہانت، بگ ڈیٹا، موبائل انٹرنیٹ اور کلاؤڈ کمپیوٹنگ سے متعلق ایک چینی سائنسی و تکنیکی ادارے سامویدکلاوڈ ٹیکنالوجی نے پاکستان کی ڈیجیٹل معیشت کی مارکیٹ کے وسیع امکانات سے فائدہ اٹھایا اور ڈیجیٹل تجارتی خدمات فراہم کرنے کے لیے ای کامرس پلیٹ فارم ایز ٹریڈر کا آغاز کیا۔
کمپنی کے چیئرمین اور سی ای او لن جیان منگ نے کہاکہ "چینی مصنوعات پاکستان میں مقبول ہیں۔ اس سال مئی میں پلیٹ فارم ایز ٹریڈر کے شروع ہونے کے بعد سے اس نے 3ہزارسے زیادہ مقامی پرچون فروشوں کو اپنی طرف متوجہ کیا ہے، جو کہ ہماری توقعات سے زیادہ ہے۔”
راولپنڈی میں موبائل فون سے متعلقہ سامان کے ایک 35 سالہ دکان دارمحمد رضوان ایز ٹریڈر کے ای کامرس پلیٹ فارمز کے کام کرنے کے بعد اس سے منسلک ہوئے۔محمد رضوان کا کہنا ہے کہ ہمیں انفرادی طور پر ممکنہ شراکت داروں یا کلائنٹس کو تلاش کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔ ہم چین میں مینوفیکچررز یا سپلائرز کے ساتھ بغیر کسی مڈل مین کے براہ راست تجارت کر سکتے ہیں جس سے لاگت میں نمایاں کمی آتی ہے۔
علی بابا گروپ کے تحت عالمی سطح پر تھوک فروشوں کے لیے آن لائن بزنس ٹو بزنس (بی ٹو بی) مارکیٹ پلیس علی بابا ڈاٹ کام نے بیلٹ اینڈ روڈ کے ساتھ ساتھ بہت سے ممالک میں غیر ملکی تجارت کا کاروبار شروع کیا ہے۔ پاکستان پلیٹ فارم پر سمندر پار تھوک فروشوں کی تعداد کے لحاظ سے سرفہرست ہے اورکوویڈ-19 کی وبا کے دوران پاکستانی ہول سیلرز کی تعداد میں سالانہ اضافہ 60 فیصد سے زیادہ تھا۔
سرمایہ اورسیلز چینلز کی کمی کی وجہ سے، پاکستانی جوڑے عزیز الرحمان اور سعدیہ عزیز نے 2018 میں پہلے دو سالوں کی سخت محنت کے بعد بچوں کے لباس کا اپنا برانڈ بنایا اور ڈیڑھ لاکھ روپے کی بچت کی۔
2020 میں، علی بابا ڈاٹ کام نے انہیں مکمل آن لائن بزنس سلوشنز اور آن لائن ٹریننگ سیشنز فراہم کیے۔ ان کی کمپنی پلیٹ فارم کے ذریعے عالمی صارفین سے جڑی ہوئی اوراب منافع میں جارہی ہے۔
عزیز الرحمن نے کہا "اب تک، ہماری کمپنی کی کاروباری آمدنی 30 لاکھ روپے سے زیادہ اور اس میں سالانہ 10لاکھ روپے کی شرح سے اضافہ ہوا ہے۔ چین نے ہمیں ڈیجیٹل معیشت میں بہت سے مواقع فراہم کیے ۔ ہمیں یقین ہے کہ پاکستان کی ڈیجیٹل معیشت مستقبل میں امید افزارہے گی ۔