اسلام آباد(کورٹ رپورٹر) اسلام آباد ہائی کورٹ نے توشہ خانہ کیس میں گرفتاری کے بعد اٹک جیل میں قید چیئرمین پاکستان تحریک انصاف عمران خان کی سزا معطل کرتے ہوئے انہیں رہا کرنے کا حکم دےدیا۔تفصیلات کے مطابق گزشتہ روز سابق وزیراعظم کی درخواست پر سماعت کے بعد چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ عامر فاروق اور جسٹس طارق محمود جہانگیری پر مشتمل 2 رکنی بینچ نے فیصلہ محفوظ کیا تھا۔منگل کو چیئرمین پی ٹی آئی کی سزا معطلی کی درخواست پر فیصلہ سناتے ہوئے چیف جسٹس عامر فاروق نے کہا کہ کیس کا فیصلہ کاز لسٹ میں شامل نہیں تھا، اس لیے فیصلے کی کاپی کچھ دیر میں فراہم کردی جائے گی، بس اتنا بتا رہے ہیں کہ درخواست منظور کرلی ہے۔عمران خان نے توشہ خانہ کیس میں ٹرائل کورٹ کا فیصلہ خلاف قانون قرار دے کر کالعدم قرار دینے کی استدعا کی تھی اور درخواست کی تھی کہ مرکزی اپیل پر فیصلے تک سزا معطل کرکے رہائی کا حکم جاری کیا جائے۔عمران خان کے وکیل نعیم حیدر پنجوتھا نے ایک پوسٹ میں سزا معطلی کے فیصلے کی تصدیق کی، انہوں نے کہا کہ چیف جسٹس صاحب نے ہماری درخواست منظور کر لی، عامر فاروق نے سزا معطل کرتے ہوئے کہا ہے کہ تفصیلی فیصلہ بعد میں لے لیجیے گا۔عمران خان کی جانب سے وکیل سردار لطیف کھوسہ، سلمان اکرم راجا، بابر اعوان ، بیرسٹر گوہر، شعیب شاہین و دیگر عدالت میں پیش ہوئے جب کہ الیکشن کمیشن پاکستان کی نمائندگی وکیل امجد پرویز نے کی تھی۔گزشتہ روز الیکشن کمیشن کے وکیل ایڈووکیٹ امجد پرویز نے اپنے دلائل مکمل کرتے ہوئے عدالت سے استدعا کی تھی کہ وہ ریاست کو اس کیس میں مدعا علیہ بنانے کے لیے نوٹس جاری کرے جب کہ عمران خان کے وکیل لطیف کھوسہ نے کہا تھا کہ انہیں امجد پرویز کی درخواست پر کوئی اعتراض نہیں ہے لیکن قانون کے مطابق کارروائی کی ضرورت نہیں ہے۔واضح رہے کہ 5 اگست کو اسلام آباد کی ایک ٹرائل کورٹ نے عمران خان کو سرکاری تحائف کی تفصیلات چھپانے سے متعلق کیس میں کرپشن کا مجرم قرار دیتے ہوئے 3 سال قید کی سزا سنائی تھی، فیصلہ آنے کے فوراً بعد انہیں پنجاب پولیس نے لاہور میں واقع زمان پارک میں ان کی رہائش گاہ سے گرفتار کر لیا تھا۔ایڈیشنل ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن جج ہمایوں دلاور نے مختصر فیصلے میں کہا تھا کہ ’عدالت مطمئن ہے کہ درخواست گزار (الیکشن کمیشن) نے موثر اور مصدقہ ثبوت پیش کیے اور ملزم کے خلاف جرم ثابت ہوگیا کہ انہوں نے توشہ خانہ سے حاصل کردہ تحائف اور 2018،2019 اور 2019، 2020 کے دوران استعمال میں لا کر بنائے گئے اثاثوں کی جھوٹی ڈیکلریشن کے ذریعے کرپٹ پریکٹسز کا ارتکاب کیا۔اس کے بعد عمران خان نے توشہ خانہ کیس میں ٹرائل کورٹ کا فیصلہ خلاف قانون قرار دے کر کالعدم قرار دینے کی استدعا کی تھی۔گزشتہ ہفتے سپریم کورٹ نے عمران خان کی سزا میں ’پروسیجرل غلطیوں‘ کی نشاندہی کی اور عمران خان کی درخواست پر اسلام آباد ہائی کورٹ کے فیصلے کا انتظار کرنے کا انتخاب کیا، عدالت عظمیٰ کے ریمارکس پر پاکستان بار کونسل نے تنقید کرتے ہوئے کہا تھا کہ ماتحت عدلیہ کے زیر التوا معاملات میں ’مداخلت‘ نہیں ہونی چاہیے۔اس کے علاوہ ایک اور پیش رفت میں گزشتہ روز اٹک جیل حکام نے سپریم کورٹ کے 24 اگست کے حکم کی تعمیل کرتے ہوئے سابق وزیراعظم کو اٹک جیل میں دی جانے والی سہولیات کی تفصیلات سے متعلق رپورٹ عدالت عظمیٰ میں پیش کردی تھی۔یہ پیش رفت بشریٰ بی بی کی جانب سے سپریم کورٹ میں درخواست دائر کرنے کے بعد سامنے آئی تھی جس میں خدشہ ظاہر کیا گیا تھا کہ ان کے شوہر کو شدید خطرہ لاحق ہے اور ان کی صحت تیزی سے بگڑ رہی ہے۔گزشتہ رات سماجی رابطے کی ویب سائٹ پر جاری ایک بیان میں سابق وزیر داخلہ رانا ثنا اللہ نے عمران خان کا نام لیے بغیر کہا کہ وہ باہر نہیں آئیں گے—رہائی ممکن نہیں، دیگر کیسز میں پراسیکیوشن کا سامنا کرنا ہو گا۔پی ٹی آئی کے رہنما بابر اعوان نے کہا کہ عمران خان کی سزا معطلی کا پہلا نتیجہ یہ نکلا ہے کہ وہ تحریک انصاف کے چیئرمین کی حیثیت سے اب بحال ہوگئے ہیں۔عدالت کے باہر میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے وکیل بابر اعوان نے کہا کہ عمران خان کی سزا معطل ہوگئی ہے، وہ تحریک انصاف کے چیئرمین تھے اور چیئرمین رہیں گے۔بابر اعوان نے کہا کہ عمران خان کی اب فوری طور پر رہائی ہونی چاہیے اور یہ جو الیکشن کرانے کے لیے نگران حکومت بیٹھی ہوئی ہے وہ ایسا کھیل نہ کھیلے کہ ان پر سے چھوٹا موٹا اعتبار بھی ختم ہوجائے۔انہوں نے کہا کہ یہ طے ہوگیا کہ یہ ایک کینگرو کورٹ کا فیصلہ تھا جو کہ معطل ہوگیا ہے۔ان کے علاوہ فیصلہ سنائے جانے کے بعد چیئرمین پی ٹی آئی کے وکیل شعیب شاہین نے میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ آج حق، سچ، آئین اور قانون کی فتح ہوئی ہے۔انہوں نے کہا کہ عمران خان کے 25 دن قید کی تلافی کیا ہوگی، افسوس ہے کہ انصاف کا قتل ہوا جو سب نے دیکھا۔انہوں نے کہا کہ پی ڈی ایم کی جماعتوں نے ملک کے ساتھ کھلواڑ کیا، آج غریب عوام بل جمع نہیں کر پارہے ہیں۔سینئر قانون دان راجا خالد نے کہا کہ ایسے کیسز جن میں 3 سال سزا ہو اور کیسز کے بیک لاگ و دیگر وجوہات کی بنا پر 6 ماہ میں اس فیصلے کے خلاف اپیل پر فیصلہ مشکل ہو تو یہ عدالتوں کا معمول ہے کہ سزا کو معطل کردیا جاتا ہے، لہٰذا یہ کوئی انہونی بات نہیں ہے،یہ واضح رہے کہ وہ سزا یافتہ کی تعریف پر پورا اترتے ہیں اور ان کی نااہلی تاحال برقرار ہے۔ فیصلہ سنائے جانے سے قبل بابر اعوان اور سلمان صفدر سمیت پی ٹی آئی کے چند دیگر وکلا کو اسلام آباد ہائی کورٹ کے باہر دیکھے گئے۔میڈیا سے بات چیت کرتے ہوئے پی ٹی آئی رہنما بابر اعوان نے کہا کہ ان کی لڑائی صرف ایک کیس یا فیصلے کے لیے نہیں ہے، ان کا مقصد لوگوں کو ایک بڑی جیل سے آزاد کرنا ہے۔انہوں نے کہا کہ آپ سب ایک بڑی جیل میں ہیں اور ہم آپ سب کو رہا کرانا چاہتے ہیں۔دوسری جانب عمران خان کی قانونی ٹیم نے اسلام آباد ہائی کورٹ میں ایک اور درخواست دائر کردی۔درخواست میں سابق وزیر اعظم کی مزید غیر قانونی اور بلاجواز گرفتاری سے باز رکھنے کی ہدایت جاری کرنے کی استدعا کی، پی ٹی آئی نے بیرسٹر سلمان صفدر کے ذریعے اسلام آباد ہائیکورٹ میں درخواست دائر کی۔درخواست میں استدعا کی گئی کہ توشہ خانہ کیس میں سزا سنائے جانے کے بعد درج تمام مقدمات میں گرفتار کرنے سے روکا جائے، ایف آئی اے کو بھی چیئرمین پی ٹی آئی کو گرفتار کرنے سے روکا جائے۔