کراچی(نمائندہ خصوصی) معروف ادویہ ساز کمپنی گلیکسو اسمتھ کلائن پاکستان لمیٹڈ نے 30 جون 2023 کو ختم ہونے والی ششماہی کے دوران 321.83 ملین روپے کا خسارہ ریکارڈ کیا ہے، جب کہ گزشتہ سال کے اسی عرصے میں کمپنی کو 631.21 ملین روپے کا بعد از ٹیکس منافع حاصل ہوا تھا۔پیر کو پاکستان اسٹاک ایکسچینج کو فراہم کردہ مالی گوشواروں میں کمپنی نے کہا کہ فارما کمپنی نے 1.01 روپے فی حصص نقصان درج کیا جبکہ گزشتہ سال کے اسی عرصے (ایس پی ایل وائی)میں فی حصص آمدنی 1.98 روپے تھی۔نفع و نقصان کے بیان کے مطابق گلیکسو کی آمدن میں 23.26 ارب روپے کا اضافہ ریکارڈ کیا گیا ہے، جو ایک سال قبل 18.17 ارب روپے کے مقابلے میں 28 فیصد اضافہ ظاہر کرتا ہے۔تاہم سالانہ بنیاد پر کمپنی کا مجموعی مارجن 7 فیصد رہا جو گزشتہ سال کے اسی عرصے کے مقابلے میں 14 فیصد کمی کی نشاندہی کرتا ہے۔ اور فارماسیوٹیکل کا کہنا ہے کہ یہ کمی روپے کی قدر میں نمایاں کمی، افراط زر (مہنگائی یا اشیا کی بڑھتی قیمتیں)اور ایندھن کی قیمتوں میں اضافے کی وجہ سے ہوئی ہے۔رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ تاہم مارجن میں کمی کے اثرات کو جزوی طور پر حکومت کی جانب سے صنعت بھر میں افراط زر کی ایڈجسٹمنٹ کے ذریعے کم کیا گیا، جس کا تیسری سہ ماہی میں زیادہ واضح اثر پڑا۔فروخت کی زیادہ لاگت کی وجہ سے کمپنی کا مجموعی منافع 6 مئی 2023 میں کم ہو کر 1.6 ارب روپے رہ گیا جو 3.9 ارب روپے تھا، اور یہ تقریبا 59 فیصد کی کمی ہے۔چھ ماہ کے دوران کمپنی نے دیگر آمدنی کی مد میں 2.29 ارب روپے کمائے جب کہ ایس پی ایل وائی میں 1.07 ارب روپے کمائے گئے، جو 114 فیصد سے زائد کا اضافہ ہے۔آپریٹنگ اخراجات میں بھی اضافہ ہوا جس کی وجہ سے 6 ایم سی وائی 23 میں آپریٹنگ منافع 72 فیصد کم ہوکر 717.12 ملین روپے رہ گیا ج بکہ ایس پی ایل وائی میں یہ 2.56 ارب روپے تھا۔کمپنی کی رپورٹ کے مطابق مالی سال 2023 میں 366.2 ملین روپے کی لاگت سے قبل از ٹیکس منافع مزید کم ہو کر 350.92 ملین روپے رہ گیا جو سالانہ بنیادوں پر 84 فیصد کی کمی ہے۔ملک کے معاشی منظرنامے پر اپنے خدشات کا اظہار کرتے ہوئے فارماسیوٹیکل نے اپنی رپورٹ میں کہا ہے کہ غیر ملکی زرمبادلہ کے کم ذخائر کی وجہ سے پاکستان کی معیشت کافی دبا میں ہے۔کمپنی کے مطابق پاکستان آئی ایم ایف اسٹینڈ بائی معاہدے اور دیگر دوست ممالک سے فنڈز حاصل کرنے کے بعد قلیل مدت میں ڈیفالٹ سے بچ گیا ہے، لیکن پائیدار ترقی کے لیے طویل مدتی اصلاحات کی ضرورت ہے۔گلیکسو نے کہا کہ اس تناظر میں ہم نے سبسڈی میں کمی اور شرح سود اور ٹیکسوں میں اضافے کو بھی دیکھا ہے جس کے نتیجے میں کاروبار کرنے کی لاگت میں اضافہ ہوا ہے۔ مپنی نے یہ بھی کہا کہ میکرو اکنامک اشارے دوسری سہ ماہی کے اختتام پر چیلنجنگ رہتے ہیں۔رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ فارماسوٹیکل انڈسٹری افراط زر کے دبا سے سب سے زیادہ متاثر ہوئی ہے جس میں کاروبار کرنے کی بڑھتی ہوئی لاگت کو قیمتوں پر قابو پانے میں ناکامی کا سامنا ہے۔کمپنی کے مطابق فارما سیوٹیکل مصنوعات پر دی جانے والی ایک بار کی افراط زر کی ایڈجسٹمنٹ پاکستان میں مریضوں کے لیے معیاری ادویات کی مستقل دستیابی کو یقینی بنانے کے لیے کافی نہیں ہے۔کمپنی نے حکومت پر زور دیا کہ وہ کاروبار خاص طور پر فارماسیوٹیکل انڈسٹری کو فروغ دینے کے لئے سازگار ماحول فراہم کرنے کے لئے ہر ممکن کوشش کرے۔