کابل( مانیٹرنگ ڈیسک ) افغانستان میں نصف شب آنے والے زلرلے نے تباہی مچادی جہاں پاک افغان سرحد پر واقع افغان صوبوں پکتیکا اور خوست کے تین اضلاع میں زلزلے کے شدید جھٹکوں کے باعث شدید جانی و مالی نقصان ہوا اوردرجنوں مکانات زمین بوس ہوگئے جن کے ملبہ تلے آکر 1000 سے زائد افغان شہری جاں بحق اور 1500 کے قریب زخمی ہونے کی ابتدائی اطلاعات ملی ہیں۔جاں بحق و زخمیوں میں بچے اور خواتین بھی شامل بتائے جاتے ہیں۔برطانوی خبررساں ادارے کی رپورٹ میں امریکی جیولوجیکل سروے (یو ایس جی سی) کے حوالے سے بتایا گیا کہ ریکٹر اسکیل پر زلزلے کی شدت 6.1 ریکارڈ کی گئی اورزلزلے کا مرکز جنوب مشرقی افغانستان میں خوست شہر سے 44 کلومیٹر دور تھا جبکہ اس کی گہرائی 51 کلومیٹر تھی۔ جہاں نصف شب آنے والے زلزلے کے جھٹکے افغان دارالحکومت کابل‘ ننگرہار‘ خوست‘ پکتیا‘ پکتیکا‘ غزنی‘ میدان وردک اور کئی دیگر صوبوں میں انتہائی شدت کے ساتھ محسوس کئے گئے جس کے نتیجے میں مقامی آبادی کے لوگوں میں شدید خوف و ہراس پھیل گیا۔
ابتدائی اطلاعات کے مطابق صوبہ پکتیکا کے گیان اور ارگون اضلاع سب سے زیادہ متاثر ہوئے ہیں جہاں کئی گاؤں مکمل طورپر تباہ ہوگئے ہیں اور مکانات کے ملبے تلے دب کر سینکڑوں افغان شہری جاں بحق اور زخمی ہوگئے ہیں۔جاں بحق اور زخمیوں میں خواتین اور بچے بھی شامل ہیں۔ صوبہ خوست کے ضلع سپیرا میں ڈنڈاکی نامی گاؤں میں بھی زلزلے نے شدید جانی و مالی نقصان پہنچایا ہے جہاں متعدد گھروں کی چھتیں گرگئی ہیں تاہم ابھی امدادی کام جاری ہیں اور ملبہ تلے دبے لوگوں کو نکالاجارہاہے جس کے نتیجے میں ہلاک و زخمی افراد کی تعدادمیں اضافہ کا خدشہ ظاہرکیا جارہا ہے۔
مقامی سرکاری ذرائع کے حوالے سے موصولہ ابتدائی اطلاعات کے مطابق ضلع گیان میں 100 سے زائد جاں بحق وزخمی افراد جبکہ ضلع ارگون سے اب تک 35لاشیں اور 60 زخمی منتقل کئے جاچکے ہیں۔ادھر مقامی میڈیا کی رپورٹس کے مطابق متاثرہ آبادی کی امداد کے لئے دیگر علاقوں سے بڑی تعدامیں لوگ پہنچنا شروع ہوگئے ہیں اور امدادی کاموں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لے رہے ہیں۔مقامی افراد کے مطابق اْنہوں نے ایسی شدت کا زلزلہ پہلے نہیں محسوس کیا تھا۔زلزلے کے جھٹکے محسوس کرتے ہوئے مقامی افراد استغفار کرتے ہوئے گھروں سے باہر نکل آئے۔ مقامی ذرائع کے مطابق جہاں زیادہ نقصان ہواہے وہاں کئی منزلہ اْونچی مٹی سے بنی ہوئی کچی عمارتیں واقع ہیں۔ زلزلہ سے ہونے والے شدید جانی و مالی نقصان کے بارے سرکاری طورپر معلومات اکٹھی کی جارہی ہیں۔