اسلام آباد (نمائندہ خصوصی)صدر مملکت ڈاکٹر عارف علوی کی جانب سے اپنے ہی پرنسپل سیکرٹری وقار احمد پر مبینہ طور پر دباؤ ڈالے جانے کا انکشاف ہوا ہے۔ذرائع کا دعویٰ ہے کہ صدر مملکت نے اپنے پرنسپل سیکرٹری وقار احمد سے کہا کہ آفشیل سیکرٹ ایکٹ ترمیمی بل اور آرمی ایکٹ ترمیمی بلز کے معاملے پر اُن کی پارٹی پی ٹی آئی کا اُن پر بہت دباؤ ہے، ابھی وہ خاموش ہو جائیں اور دو تین سال بعد پی ٹی آئی کی حکومت آئے گی تو اُن کی تلافی کر دی جائے گی۔اس پر وقار احمد نے جواب دیا کہ وہ چند ماہ میں ریٹائر ہو رہے ہیں، صدر مملکت اپنی سیاست کیلئے اُن کے بے داغ کیرئیر پر دھبہ نہ لگائیں۔ذرائع کا کہنا ہے کہ صدر مملکت کی خواہش تھی کہ وقار احمد بلز کے معاملے پر باضابطہ کوئی وضاحت نہ دیں اور کوئی خط نہ لکھیں لیکن وقار احمد نے دباؤ قبول کرنے سے انکار کر دیا۔صدر مملکت نے اپنے سیکرٹری وقار احمد کی خدمات واپس کردیں
ذرائع نے بتایاکہ پرنسپل سیکرٹری وقار احمد نے صدر مملکت کو یہ بھی بتایاکہ اگلے مہینے اُن کی بیٹی کی شادی ہے اور اُن کیلئے یہ بات بہت تکلیف دہ ہے کہ اُن پر کسی ایسی بات کا الزام لگایا جائے جس سے ان کا کوئی تعلق ہی نہیں ہے۔خیال رہےکہ 20 اگست کو صدر مملکت ڈاکٹر عارف علوی نے کہا تھا کہ اللہ گواہ ہے میں نے آفیشل سیکریٹ ایکٹ اور آرمی ایکٹ ترمیمی بل پر دستخط نہیں کیے۔صدر عارف علوی نے اپنے بیان میں کہا کہ میں آفیشل سیکریٹ ایکٹ اور آرمی ایکٹ ترمیمی بل سے اتفاق نہیں کرتا، میں نے اپنےعملے کو کہا کہ بل کو بغیر دستخط کے واپس بھیجیں۔
صدر پاکستان نے مزید کہا میں نے عملے سے کافی بار تصدیق کی کہ بلز بغیر دستخط کے واپس بھیج دیے گئے ہیں، مجھے آج معلوم ہوا کہ میرے عملے نے میری مرضی اور حکم کو مجروح کیا۔پھر اس کے بعد پیر یعنی گزشتہ روز صدر مملکت ڈاکٹر عارف علوی نے اپنے سیکرٹری وقار احمد کی خدمات واپس کردیں۔ سیکرٹری کی تبدیلی کا فیصلہ آفیشل سیکرٹ ایکٹ اور آرمی ترمیمی ایکٹ پر صدر کے بیان کے تناظر میں کیا گیا۔ ایوان صدر سیکرٹریٹ نے وزیراعظم کے پرنسپل سیکرٹری کو خط لکھ کر سیکرٹری کی تبدیلی کے فیصلے سے آگاہ کیا۔ خط میں لکھا گیا ہے کہ وقار احمد کی خدمات کی مزید ضرورت نہیں۔ایوان صدر کے خط میں پاکستان ایڈمنسٹریٹو سروس کی گریڈ 22 کی خاتون افسر حمیرا احمد کو صدر کا سیکرٹری لگانے کی سفارش بھی کی گئی ہے۔اس معاملے پر سیکرٹری وقار احمد نے صدر کو خط لکھا تھا اور کہا تھاکہ صدر مملکت نے میری خدمات واپس کردیں لیکن میں حقائق سامنے رکھنا چاہتا ہوں، ایسا تاثر دیا گیا کہ سیکرٹری مذکورہ بلوں سے متعلق کسی بے ضابطگی کا ذمہ دار ہے۔آرٹیکل 75 کے تناظر میں صدر کو بل کی 10دن کے اندر منظوری دینےکا اختیار ہوتا ہے، آرٹیکل 75 کے تحت صدر کو بل 10دن کے اندر واپس پارلیمنٹ کو دوبارہ غور کے لیے بھجوانےکا اختیار ہے، واضح تھا وزیراعظم نے ایڈوائس8 اگست کو بھیجی اور 17اگست کو دس دن کی مدت پوری کی جائے گی، صدر مملکت نے آفیشل سیکرٹ ترمیمی بل کی منظوری دی نہ ہی واپس پارلیمنٹ کو بھجوایا، آفیشل سیکرٹ ترمیمی بل 21 اگست تک صدر مملکت کے آفس میں موجود ہے۔
انہوں نے کہا کہ صدرمملکت کی سیکرٹری کی خدمات اسٹیبلشمنٹ کو واپس کرنےکا فیصلہ انصاف پر مبنی نہیں ہے، میں حلف پر بیان دینےکو تیار ہوں، صدر مملکت سے درخواست ہےکہ میری خدمات واپس کرنےکا خط واپس لیں، میں نے ایوان صدرکے دفتر کے وقار کو کم نہیں کیا۔