کراچی(نمائندہ خصوصی)پی ڈی ایم کی اتحادی حکومت بجلی کی قیمت میں ریکارڈ اضافے کرنے کے باجود پاور سیکٹر کے گردشی قرضوں میں کمی لانے میں ناکام رہی۔گزشتہ مالی سال کے اختتام پر گردشی قرضہ بڑھ کر 2.31 ٹریلین روپے پر پہنچ گیا، گردشی قرضے میں اضافے کی اہم وجہ پاور ڈسٹریبیوشن کمپنیوں کی نااہلی، بجلی چوری اور لائن لاسز ہیں۔سرکاری اعداد و شمار کے مطابق جون میں ختم ہونے والے مالی سال 2022-23 کے دوران گردشی قرضوں میں 789 ارب روپے کا اضافہ ہوا، جو 66 ارب روپے ماہانہ بنتے ہیں، مالی سال 2022-23 کے آغاز پر گردشی قرضہ 2.253 ٹریلین روپے تھا، جو بڑھ کر 2.31 ٹریلین روپے ہوگیا۔آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک کی ہدایات پر حکومت نے دو بار بجلی کے نرخوں میں اضافہ کیا، پہلی بار جولائی 2022 میں 7.91 روپے اور رواں سال جولائی میں 8 روپے فی یونٹ کا اضافہ کیا ہے، اس کے علاوہ حکومت نے فی یونٹ 3.23 روپے ڈیبٹ سروسنگ سرچارج نافذ کیا اور ایگریکلچر اور انڈسٹریل سیکٹر کو دی گئی سبسڈیز بھی واپس لیں، جس کے نتیجے میں فی یونٹ قیمت بڑھ کر50 روپے تک پہنچ گئی، لیکن اس کے باجود گردشی قرضوں میں کوئی کمی ہونے کی بجائے اضافہ دیکھا گیا ہے۔وزارت توانائی سے جاری کردہ اعداد و شمار کے مطابق فیصل آباد، گجرانوالہ اور اسلام آباد کی پاور ڈسٹریبیوشن کمپنیوں نے صوبہ سندھ میں چوری کی جانے والی بجلی کی تلافی کی، نیپرا کی جانب سے سکھر الیکٹرک پاور کمپنی کو لاسز 17.1 فیصد تک کم کرنے کا ہدف دیا گیا تھا، لیکن یہ بڑھ کر 34.6فیصد تک پہنچ گئے۔حیدرآباد الیکٹرک سپلائی کمپنی کو لاسز 18.6فیصد تک کم کرنے کا ہدف دیا گیا تھا، لیکن یہاں بھی لاسز بڑھ کر 27.5 پر پہنچ گئے، جبکہ گجرانوالہ لاسز کم کرکے 9.1 فیصد کرنے کا ہدف دیا گیا تھا، جو کہ کم ہو کر 8.6 فیصد رہ گئے، اسی طرح فیصل آباد کو 8.8 فیصد کا ہدف دیا گیا تھا، جو کہ کم ہوکر 8.6 رہ گئے، جبکہ تمام پاور ڈسٹریبیوشن کمپنیاں ہدف کے مطابق بل وصول کرنے میں بھی ناکام رہی ہیں۔