اسلام آباد (بیورو رپورٹ) پاکستان مسلم لیگ (ن) کے سینیٹر عرفان صدیقی نے سپریم کورٹ (ریویو آف ججمنٹس اینڈ آرڈرز) ایکٹ 2023 کو سپریم کورٹ کی طرف سے کالعدم قرار دئیے جانے کے فیصلے سے پیدا ہونے والی صورت حال پر فوری طور پر غور کرنے کے لئے سینٹ میں تحریک التوا جمع کرادی ہے،12اگست کو سینٹ کی نوٹس برانچ میں بذریعہ ای۔میل جمع کرائی جانے والی تحریک التوا سینٹ کے رولز آف پروسیجر کے رول 87 کے تحت جمع کرائی گئی ہے ۔سات نکات پر مبنی تحریک التواءمیں کہا گیا کہ سپریم کورٹ کے تین رکنی بینچ نے پارلیمنٹ کے دونوں ایوانوں کے منظور کردہ اور صدر پاکستان کے توثیق شدہ قانون کو کالعدم قرار دینے کا فیصلہ جاری کردیا ہے جس پر فوری غور کیا جانا چاہیے۔ پارلیمنٹ کے اس قانون کا بڑا مقصد آئین کے آرٹیکل 10۔A کے مطابق ”فئیر ٹرائیل“ کے حق اور متعدد دیگر آرٹیکلز کے تحت انصاف کے تقاضوں کو یقینی بنانے کے لئے ا±ن افراد کو اپیل کا حق دینا ہے جنہیں سپریم کورٹ ازخودنوٹس (184۔3) کے تحت سزا دیتی ہے۔ سینیٹر عرفان صدیقی نے تحریک التوائ میں وضاحت کی کہ سیشن کورٹ سے سزا پانے والے شخص کوہائی کورٹ اور سپریم کورٹ میں دو اپیلوں کا حق ہوتا ہے جبکہ 184۔3 کے تحت سزا کی صورت میں سپریم کورٹ کا پہلا فیصلہ ہی آخری اور حتمی قرار پاتا ہے جو بنیادی انسانی حقوق اور انصاف کے تقاضوں کے منافی ہے۔ تحریک التوا میں کہاگیا ہے کہ فیصلے میں یہ واضح تاثر دیاگیا ہے کہ 1980 میں سپریم کورٹ کے اپنے بنائے گئے رولز (ضابطے) پارلیمنٹ کے اختیار قانون سازی سے بھی بالا تر ہیں۔ گویا ان ضابطوں کو مجلس شوریٰ کے بنائے گئے قوانین پر ترجیح حاصل ہے۔ سینیٹر عرفان صدیقی نے تحریک التوا میں کہا ہے کہ کسی شخص کو اپیل کے حق سے محروم رکھنا انصاف کے تقاضوں کا قتل ہے۔ عدالتی فیصلے میں کہاگیا ہے کہ 1973 میں آئین سازوں نے 184۔3 کے تحت اپیل کا حق نہیں دیا تھا۔ سینیٹر عرفان صدیقی نے تحریک التوا میں کہا کہ 1973 کے دانشمند آئین سازوں کے تصور میں بھی نہیں ہوگا کہ ایک وقت ایسا بھی آئے گا جب184۔3 کا دائرہ بے انتہا پھیلا دیا جائے گا۔ اس کے تحت کسی شہری کو عمر بھر کے لئے سیاست سے نااہلی کی کڑی سزا بھی دی جاسکے گی اور اسے اپیل کا حق بھی نہیں ہوگا۔ اگر آئین سازوں کو ازخود اختیا رکے اس بے مہار اور غیرمنصفانہ استعمال کا اندازہ ہوتا تو شاید وہ یہ شق ہی اڑا دیتے یا پھر اپیل کا حق ضرور دیتے۔ تحریک التوا میں کہا گیا ہے کہ 53 دن فیصلہ محفوظ رکھتے ہوئے اسمبلی تحلیل ہونے کے دو دن بعد سنانا، نیک نیتی پر مبنی اقدام نہیں۔ سینیٹر عرفان صدیقی نے کہا کہ یہ فیصلہ پارلیمان کی کھلی توہین ہے۔ یہ پارلیمان کے اختیار قانون سازی پر قدغن اور فئیر ٹرائل کے آئینی حق پر ضرب لگاتا ہے۔ اس فیصلے نے پارلیمنٹ کی عزت وتوقیر پر سوالات کھڑے کردئیے ہیں۔ 442 ارکان پر مشتمل پارلیمان کے قانون کو تین ججوں کی طرف سے اڑا دینا جمہوریت کی بھی توہین ہے۔ سینیٹر عرفان صدیقی نے مطالبہ کیا ہے کہ سینٹ اپنی توہین کے سنگین مسئلے پر غور کرنے اور ضروری کاروائی کے لئے فوری اہمیت کے حامل اس مسئلے کو فی الفورایوان میں لائے۔