اسلام آباد (,شہزاد ملک ۔بی بی سی اُردو ڈاٹ کام، خصوصی رپورٹ)اسلام آباد کی ایک مقامی عدالت نے کمسن گھریلو ملازمہ پر تشدد کے کیس میں مرکزی ملزمہ کی ضمانت میں توسیع کی استدعا مسترد کرتے ہوئے انھیں گرفتار کرنے کے احکامات جاری کیے ہیں۔پیر کے روز اس کیس کی سماعت ڈسٹرکٹ اینڈ سیشنز جج فرید بلوچ کی عدالت میں ہوئی جہاں ملزمہ کے وکلا نے ضمانت میں توسیع کی درخواست کی تھی۔ یاد رہے کہ اس کیس میں مرکزی ملزمہ آٹھ اگست تک ضمانت پر تھیں۔ دو اگست کو ان کی ضمانت میں توسیع کرتے ہوئے عدالت نے انھیں شامل تفتیش ہونے کی ہدایات جاری کی تھیں اور 8 اگست کو انھیں دوبارہ عدالت میں پیش ہونے کا حکم دیا تھا۔ضمانت کی منسوخی کے بعد اسلام آباد پولیس نے ملزمہ کو کمرہ عدالت کے باہر سے گرفتار کر لیا ہے۔گرفتار کیے جانے کے بعد انھیں ویمن پولیس سٹیشن میں منتقل کر دیا گیا ہے۔ پولیس حکام کا کہنا ہے کہ ملزمہ کو آج ہی مقامی عدالت میں پیش کر کے ان کا جسمانی ریمانڈ لیا جائے گا۔ پولیس کے مطابق عدالت سے ملزمہ کے کم از کم چار روزہ جسمانی ریمانڈ کی استدعا کی جائے گی۔ملزمہ کو باہر لے جائیں، یہ میرے کولیگ کی اہلیہ ہیں‘
کمسن گھریلو ملازمہ کو مبینہ طور پر تشدد کا نشانہ بنانے والی سول جج کی اہلیہ اور ملزمہ کے مقدمے کی سماعت ابھی شروع بھی نہیں ہوئی تھی کہ کمرہ عدالت وکلا اور میڈیا کے نمائندوں سے پہلے ہی بھر چکا تھا۔ساڑھے آٹھ بجے مقدمے کے سماعت کے لیے عدالتی اہلکار نے اس مقدمے کی صدا لگائی جس کے بعد ملزمہ اپنے وکلا کے ہمراہ کمرہ عدالت میں پیش ہوئیں اور اس مقدمے کی سماعت کرنے والے جج نے ملزمہ کو روسٹم پر بلایا اور پھر انھیں دوبارہ اپنی نشست پر بیٹھنے کی اجازت دی۔سماعت کے دوران ملزمہ کے وکلا یہ ثابت کرنے کی کوشش کرتے رہے کہ گھریلو ملازمہ پر تشدد ان کی مؤکلہ یا ان کے گھر والوں نے نہیں کیا بلکہ خود لڑکی کے والدین اور رشتہ داروں نے کیا ہے اور تشدد کا شکار ہونے والی لڑکی کی میڈیکل رپورٹ پر بھی ملزمہ کے وکلا شکوک وشہبات کا اظہار کرتے رہے۔ اُن کا یہ موقف تھا کہ متاثرہ لڑکی کا میڈیکل 24 جولائی کو ہوا ہے جبکہ مقدمہ 25 جولائی کو درج کیا گیا ہے حالانکہ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ مقدمہ درج کروائے جانے کے بعد متاثرہ لڑکی کا میڈیکل ہونا چاہیے تھے۔دوران سماعت ملزمہ کے وکلا لڑکی پر تشدد کی ذمہ داری متاثرہ لڑکی کے والدین پر ڈالتے رہے۔ملزمہ کے وکلا نے عدالت کو بتایا کہ ان کی موکلہ اس مقدمے کی تفتیش کے لیے قائم کی گئی جے آئی ٹی کے سامنے پیش ہوئے ہیں جس پر عدالت نے ریمارکس دیے کہ شامل تفتیش ہوکر ملزمہ نے کوئی انوکھا کام نہیں کیا، وہ شامل تفتیش ہونے کی پابند تھیں کیونکہ جب عدالت نے ان کی ضمانت قبل از گرفتاری منظور کی تھی تو اس حکم نامے میں کہا گیا تھا کہ وہ شامل تفتیش ہوں گی۔ملزمہ کے وکلا نے میڈیا کو بھی تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا کہ ابھی عدالتی ٹرائل شروع بھی نہیں ہوا لیکن ان کی مؤکلہ کا میڈیا ٹرائل شروع کر دیا گیا ہے۔انھوں نے عدالت کی توجہ اس جانب مبذول کروائی کہ ابھی بھی میڈیا کی ایک قابل ذکر تعداد کمرہ عدالت اور اس کے باہر موجود ہے تاہم اس مقدمے کی سماعت کرنے والے ایڈیشنل سیشنز جج فرخ فرید بلوچ نے اس پر کوئی ردعمل نہیں دیا۔ملزمہ کالا برقعہ اوڑھے کمرہ عدالت میں پیش ہوئیں اور انھوں نے چہرے پر نقاب کیا ہوا تھا جبکہ ان کے ہاتھ میں تسبیح بھی تھی اور وکلا کی جانب سے دلائل دینے کے دوران ان کی انگلیاں تسبیح کے دانوں پر مسلسل چل رہیں تھیں۔ضمانت کی درخواست مسترد ہونے کے بعد ملزمہ کمرہ عدالت میں رونے لگیں۔ ضمانت مسترد ہونے کے بعد جب کافی دیر تک ملزمہ اپنے وکلا کے ہمراہ کمرہ عدالت میں موجود رہیں تو جج نے ملزمہ کو مخاطب کرتے ہوئے کہا ’ملزمہ کو باہر لے جائیں، یہ میرے کولیگ کی اہلیہ ہیں۔‘اس پر ملزمہ کے وکلا نے عدالت سے صرف پانچ منٹ مزید وہاں ٹھہرنے کی اجازت چاہی لیکن وہ آدھے گھنٹے تک کمرہ عدالت میں موجود ہے۔کافی دیر گزرنے کے بعد ایس پی سکیورٹی کو طلب کیا گیا جس کے بعد ملزمہ کو ایس پی کی گاڑی میں بیٹھا کر وویمن پولیس سٹیشن منتقل کر دیا۔ملزمہ کی درخواست ضمانت پر سماعت سوموار کی صبح ایڈیشنل سیشنز جج فرخ فرید بلوچ نے کی۔ اس موقع پر ملزمہ ، جو ایک سول جج کی اہلیہ ہیں، بھی عدالت کے روبرو پیش ہوئی جبکہ متاثرہ بچی کی جانب سے بھی وکلا اور بچی کی والدہ بھی عدالت میں موجود تھے۔سماعت کے آغاز پر پولیس نے ریکارڈ عدالت کے روبرو پیش کیا۔ریکارڈ پیش ہونے کے بعد ملزمہ کے وکیل نے کیس کی سماعت میں 10 بجے تک کا وقفہ کرنے کی استدعا کی، جس کو منظور کرتے ہوئے جج نے کہا کہ وہ 10 بجے فریقین کے دلائل سُن کر فیصلہ کریں گے۔وقفے کے بعد جب سماعت دوبارہ شروع ہوئی تو ملزمہ کے وکیل نے عدالت کو بتایا کہ ملزمہ اس سلسلے میں بننے والی جی آئی ٹی کے سامنے پیش ہوئیں اور اپنی بے گناہی کا اظہار کیا جبکہ ریکارڈ میں بھی پولیس نے لکھا کہ ملزمہ نے تشدد نہیں کیا گیا۔وکیل کا کہنا تھا کہ جب بچی والدین کے حوالے کی گئی تو وہ ٹھیک ٹھاک تھی۔
ملزمہ کے وکیل نے دلائل میں کہا کہ بچی کے والدین کو بارہا واپس بھیجنے کو کہا گیا تھا، انھوں نے اس موقع پر استدعا کی کہ آج دوپہر کو جی آئی ٹی نے بچی کی والدہ اور ڈرائیور کو بھی بلایا ہوا ہے،اس لیے شام تک انتظار کر لیا جائے تاکہ جے آئی ٹی کی تفتیش مکمل ہو جائے۔ملزمہ کے وکیل نے استفسار کیا کہ کیا اس کیس کے تفتیشی افسر نے ویڈیو حاصل کی، بس سٹاپ پر بچی کی تین گھنٹے کی ویڈیو موجود ہے؟ملزمہ کے وکیل کی استدعا پر عدالت نے تفتیشی افسر کو ویڈیو حاصل کرنے کی ہدایت کر دی اور کہا کہ تفتیشی افسر کا کام دونوں سائیڈ سے ثبوت حاصل کرنا ہے۔دوران سماعت کمرہ عدالت میں ویڈیو بھی دکھائی گئی جس کے بعد وکیل صفائی نے کہا کہ ویڈیو میں دیکھا جا سکتا ہے کہ ملازمہ گاڑی میں فرنٹ سیٹ پر بیٹھی ہے اور گاڑی کی بیک سیٹ پر ملزمہ اور ملازمہ کی والدہ بیٹھی ہیں۔ گاڑی میں بیٹھی ملازمہ پر اس کی والدہ نے تشدد کیا اور تین چار مکے بھی مارے۔ان کا مزید کہنا تھا کہ بچی پر کوئی تشدد نہیں کیا گیا۔
ملزمہ کے وکیل کے مطابق ان کی موکلہ پر جھوٹا الزام لگایا گیا اور عدالت سے پہلے ہی ان کا میڈیا ٹرائل بھی کیا گیا۔وکیل صفائی نے کہا کہ جو کہانی بنائی گئی وہ جھوٹی ثابت ہو رہی ہے، انھوں نے دعویٰ کیا کہ بچی کی جلد پر الرجی تھی جس کی دوا لینے کی فارمیسی سلپ بھی موجود ہے۔وکیل صفائی کے دلائل مکمل ہونےکے بعد مدعی وکیل نے ملزمہ کی ضمانت خارج کرنے کی استدعا کرتے ہوئے کہا کہ کیا عورت کوئی بھی جرم کرلے تو اُس کو ضمانت دے دی جائے؟ انھوں نے کہا کہ ’اس طرح تو جرائم پیشہ لوگ پھر ایسے ہی کریں گے، خواتین سے جرم کروا کے اس قانون کا سہارا لیں گے۔‘
مدعی وکیل نے دلائل میں کہا کہ بچی کے والدین پر الزام لگایا گیا کہ جج کی اہلیہ کو بلیک میل کر رہے ہیں، حقیقت یہ ہے کہ بچی کے والدین سے رابط کیا گیا اور پیسوں کی آفر کی گئی۔ انھوں نے کہا کہ ایک بار نہیں، بچی پر کئی بار تشدد کیا گیا۔ ’کمسن بچی کی عمر 13 سے 14 سال ہے، سول جج اور ان کی اہلیہ کو معلوم ہونا چاہیے تھا کہ کمسن ملازمہ رکھنا جرم ہے۔‘پراسیکیوٹر وقاص احمد نے دلائل میں کہا کہ قانون کے مطابق اگر دلائل پختہ دیے جاتے ہیں تو عورت کو ضمانت نہیں ملتی۔طبی رپورٹ کے مطابق بچی کو 14 زخم آئے ہیں۔ بچی کی کھوپڑی کی دائیں، بائیں اور پچھلے حصے میں انجری ہے جبکہ بچی کی آنکھوں، گال، ہونٹوں اور کمر پر بھی انجریاں ہیں۔اس موقع پر بچی کی والدہ کمرہ عدالت میں آبدیدہ ہو گئیں۔دلائل کے اختتام پر پراسیکوٹر وقاص حرل نے ملزمہ کی گرفتاری کی استدعا کی جسے عدالت نے منظور کرتے ہوئے پولیس کو انھیں حراست میں لینے کا فیصلہ جاری کر دیا۔جج فرخ فرید بلوچ نے حکم سنانے کے بعد ملزمہ کو کمرہ عدالت سے باہر لے جانے کی ہدایت کی اور کہا کہ ’میرے لیے بھی مشکل ہے کیونکہ یہ میرے کولیگ کی اہلیہ ہیں مگر جہاں انصاف کی بات ہو گی تو میں نے انصاف کرنا ہے۔‘اس کیس کی ایف آئی آر متاثرہ بچی کے والد کی مدعیت میں درج کروائی گئی تھی جس میں بتایا گیا تھا کہ متاثرہ بچی اسلام آباد میں تعینات ایک سول جج کے گھر میں گذشتہ چھ ماہ سے بطور گھریلو ملازمہ کام کر رہی تھیں۔ ایف آئی آر کے متن کے مطابق بچی کی والد کی جانب سے مذکورہ سول جج کی اہلیہ پر الزام عائد کیا گیا ہے کہ ’وہ (جج کی اہلیہ) روزانہ اس پر ڈنڈوں اور چمچوں سے تشدد کرتی تھیں اور کمرے میں بھوکا پیاسا پھینک دیتی تھیں۔‘مقدمے کے مطابق بچی نے یہ بھی بتایا ہے کہ انھیں سول جج کے گھر ملازمت کے بعد سے زیادہ تر عرصہ ایک کمرے میں بند کر کے رکھا گیا تھا۔والد کے مطابق ملازمت پر جانے کے بعد ان کا کئی ماہ تک اس سے رابطہ بذریعہ فون ہوتا تھا تاہم چند روز قبل جب وہ بچی سے ملنے جج کے گھر پہنچے تو انھیں ایک کمرے سے اس کے رونے کی آواز آئی۔ایف آئی آر میں والد کی جانب سے دعویٰ کیا گیا ہے ’جب ہم نے اس کمرے کا رخ کیا تو وہاں سے بچی زخمی حالت میں موجود تھی اور زارو قطار رو رہی تھی۔‘
ایف آئی آر میں بچی کے جسم پر موجود زخموں کی تفصیلات بھی درج ہیں۔’بچی کے سر پر جگہ جگہ زخم تھے جن میں چھوٹے کیڑے پڑ چکے تھے۔ ان کا بازو، دونوں ٹانگیں اور ایک دانت بھی ٹوٹا ہوا تھا۔‘ایف آئی آر کے متن کے مطابق ’بچی کے جسم کے دیگر حصوں پر زخموں کے علاوہ ان کے گلے پر بھی نشانات تھےجیسے کسی نے گلا گھونٹنے کی کوشش کی ہو۔‘سرگودھا کے ڈسٹرکٹ پولیس افسر (ڈی پی او) فیصل کامران نے بتایا تھا کہ ابتدائی میڈیکل رپورٹ کے مطابق بچی کے سر سمیت جسم کے 15 مقامات پر زخموں کے نشانات ہیں۔ ’بچی کے سر پر متعدد جگہ گہرے زخم ہیں اور بروقت علاج نہ ہونے کے باعث یہ زخم خراب ہو چکے ہیں اور ان میں کیڑے پڑ گئے ہیں۔‘
میڈیکل رپورٹ کے مطابق ’15 ظاہری چوٹوں کے علاوہ بچی کے اندرونی اعضا بھی متاثر ہیں۔‘