کراچی (کامرس رپورٹر) اسلامی جمہوریہ ایران کے قونصل جنرل حسن نوریان نے پاکستان کے ساتھ دوطرفہ تجارت کو فروغ دینے کے لیے دسمبر 2022 میں کراچی میں سنگل کنٹری نمائش منعقد کرنے کا اعلان کیا ہے۔انہوں نے کہا کہ پاکستان کے ساتھ تجارت کے فروغ کے لیے حال ہی میں اچھے اقدامات اٹھائے گئے ہیں جن میں دو کراسنگ بارڈرز کا افتتاح، تجارتی روابط بڑھانے اور ایک دوسرے کی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے بارڈر مارکیٹس کھولنے کی منظوری بھی شامل ہے۔بارٹر ٹریڈ پر اتفاق گزشتہ سال اس وقت کے وزیر تجارت عبدالرزاق دواد کے دورہ ایران کے موقع پر ہوا تھا اور یہ آئندہ دو ماہ میں عملی طور پر شروع ہو جائے گا۔ ان خیالات کا اظہار انہوں نے سائٹ ایسوسی ایشن آف انڈسٹری کراچی کے دورے کے موقع پر ممبران سے خطاب کر تے ہوئے کیا۔ اس موقع پر ایرن کے کمرشل قونصل حسین امینی، سائٹ ایسوسی ایشن کے سرپرست اعلیٰ زبیر موتی والا، صدر عبدالرشید ، سینئر نائب صدر سعود محمود، نائب صدر محمد کامران عربی، سابق صدور مجید عزیز اور عبدالہادی، سلیم ناگریا، ریاض الدین، عبدالقادر بلوانی، خالد ریاض، توصیف احمد، محمد ریاض ڈھیڈھی، نوید واحد، محمد حسین موسانی، حارث شکور و دیگر بھی موجود تھے۔ایرانی قونصل جنرل نے پاکستان کے وزیر خارجہ بلاول بھٹو زرداری کے حالیہ دورہ تہران کو سراہتے ہوئے کہا کہ ان کے دورے کے دوران بارٹر مارکیٹ کھولنے میں تیزی لانے، پاکستان کو تجارتی ویزوں کے اجراءمیں سہولت فراہم کرنے، مالیاتی اور مانیٹری میکانزم کے قیام جیسے مسائل پر غور سمیت دیگر امور پر تبادلہ خیال کیا گیا۔انہوں نے کہا کہ ہمارے باہمی سفر کی راہ میں کچھ چیلنجز اور رکاوٹیں حائل ہیں اور دونوں ملکوں کی حکومتوں کی رضامندی سے یہ رکاوٹیں جلد دور ہو جائیں گی۔ اسلامی جمہوریہ ایران کے نئے صدر نے اعلان کیا ہے کہ ہمسایہ ممالک کے ساتھ اچھے تعلقات ان کی خارجہ پالیسی کی اولین ترجیح ہوں گے۔قونصل جنرل نے مزید کہا کہ تجارت کے فروغ میں نجی شعبے کا کردار ناگزیر ہے اور پاک ایران مشترکہ سرمایہ کاری کمپنی ہماری مشترکہ سرمایہ کاری کی مالی معاونت کے لیے تیار ہے۔ہم ایران کے قونصلیٹ جنرل میں ان اہداف کے حصول کے لیے تاجروں کی ہر ممکن مدد کرنے کے لیے تیار ہیں۔ انہوں نے ایران کے ساتھ باہمی تجارت کو فروغ دینے کی کوششوں پر سائٹ ایسوسی ایشن کے صدر عبدالرشید کی خدمات کو سراہا اور بینکنگ چینل سے متعلق سوال کے جواب میں بتایا کہ ایران پہلے ہی کراچی میں ایرانی بینک کی برانچ کھولنے کی تجویز دے چکا ہے۔ ہم ڈالر یا یورو کے بجائے اپنی قومی کرنسیوں میں لین دین کا ایک نیا طریقہ شروع کر سکتے ہیں اگر اسٹیٹ بینک این او سی جاری کرے تو یہ بہت جلد ہو جائے گا اس حوالے سے ایران تیار ہے۔ ہم نے بندر عباس چیمبر آف کامرس کی جانب سے کراچی چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹری کے صدر کو باضابطہ دعوت نامہ پیش دیا ہے کہ وہ ایک وفد کو بندر عباس کا دورہ کرنے کے لیے بھیجیں جو کہ ایران کی معیشت کا مرکز ہے نیز کراچی اور بندر عباس کے درمیان سسٹر سٹیز کا معاہدہ بھی ہو سکتا ہے۔ہم کے سی سی آئی اور سائٹ و دیگر ایسوسی ایشنز کے وفود کو بندر عباس کا دورہ کرنے کی دعوت دیتے ہیں۔اس موقع پر سائٹ ایسوسی ایشن آف انڈسٹری کے سرپرست اعلیٰ زبیر موتی والا نے کہا کہ ایران کے ساتھ ہمارے مستحکم تعلقات ہیں۔دونوں ملکوں کی تاجر برادری کو مل بیٹھ کر ون ٹو ون کی صورتحال پیدا کرنے کے لیے کام کرنا چاہیے۔ ایران کو تیل، گیس، لوہے اور دیگر بہت سی مصنوعات میں برتری حاصل ہے جسے وہ اقوام متحدہ کی پابندیوں کی وجہ سے برآمد کرنے کے سے قاصر ہے۔اس کا ایک حصہ ایران پاکستان گیس پائپ لائن کی طرح پاکستان کی طرف موڑا جا سکتا ہے۔ پاکستان میں صنعتیں گیس کی قلت کی وجہ سے شدید بحران کا شکار ہیں جو ہمارے قریبی پڑوسی ایران کے پاس وافر مقدار میں موجود ہے۔زبیر موتی والا نے ایران کے ساتھ بارٹر ٹریڈ پر اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ بارٹر ٹریڈ جزوی طور پر سرکاری ہونا چاہیے جہاں ضامن سرکاری فریق ہوں جو بزنس ٹو بزنس رابطے پر کیا جانا چاہیے جس کے تحت پاکستان خام دھات درآمد کر سکتا ہے اور ٹیکسٹائل یا چاول بھیج سکتا ہے کیونکہ اقوام متحدہ کی پابندیوں کے تحت ایران کے لیے خوراک کی درآمد پر کوئی پابندی نہیں ہے۔ہم بھارت کے ساتھ بھی کاروبار کر رہے ہیں اور ہمارا خیال ہے کہ سیاسی مسائل یا پابندیوں کی وجہ سے کاروباری سرگرمیاں محدود نہیں ہونی چاہئیں۔بارٹر ٹریڈ کے تحت ہم ویلیو ایڈیڈ قیمتی پتھروں اور فائبر میں جوائنٹ وینچرز کر سکتے ہیں۔اگر بارٹر ٹریڈ کا یہ آئیڈیا کام کرتا ہے تو اس سے بہت سے مسائل حل ہو جائیں گے۔ہم بارٹر ٹریڈ کے تحت گیس پر بھی کام کر سکتے ہیں۔کچھ آئٹمز ہیں جسے خام مال کہا جا سکتا ہے۔ایران میں گارمنٹس فیکٹریاں پہلے ہی کام کر رہی ہیں اور اچھے کپڑے تیار کر رہی ہیں۔وہاں ڈیجیٹل پرنٹنگ پلانٹس لگائے جا سکتے ہیں۔ہم سمجھتے ہیں کہ بارٹر معاہدے کو دونوں ملکوں کے فائدے کے لیے فروغ دینا چاہیے۔موتی والا نے مزید کہا کہ گیس ابھی بھی پائپ لائن کے نقطہ نظر سے بہت دور ہے۔
اقوام متحدہ کو اس صورتحال کو سمجھنا چاہیے۔ ایران پر پابندیاں لگا کر اقوام متحدہ دہشت گردی کے خلاف جنگ کے اتحادیوں کو سزا دے رہا ہے۔ہمارے ملک میں گیس کی بہت زیادہ مانگ ہے اور اس کی طلب بڑھ رہی ہے۔قبل ازیں صدر سائٹ ایسوسی ایشن آف انڈسٹری عبدالرشید نے ایرانی قونصل جنرل کا خیرمقدم کیا اور سائٹ ایریا کا مختصر تعارف پیش کرتے ہوئے قومی معیشت میں اس کے حصے پر روشنی ڈالتے ہوئے کہا کہ اسلامی جمہوریہ ایران اور اسلامی جمہوریہ پاکستان مسلم برادر ملک ہیں جہاں تک دونوں ملکوں کے درمیان تجارت کا تعلق ہے۔ ان کے خیال میں ایران اور پاکستان کے درمیان ٹیکسٹائل جیسے کئی شعبوں میں دوطرفہ تجارتی و اقتصادی تعلقات کو بڑھانے کی بڑی صلاحیت موجود ہے۔پاکستان اور ایران کو نئی راہیں تلاش کرنے کے لیے اجتماعی کوششیں کرنا ہوں گی۔تجارت کو فروغ دینے کے لیے سرکاری بینکنگ چینل اور ادائیگی کے ذرائع کو تلاش کیا جانا چاہیے۔بارٹر ٹریڈ بھی ایک آپشن ہے۔افغانستان کے ساتھ پاک روپے میں تجارت ہو رہی ہے اور یہی ایران کے ساتھ بھی ہو سکتی ہے۔ سابق صدرسائٹ ایسوسی ایشن آف انڈسٹری مجید عزیز نے کراچی میں ایرانی مصنوعات کی نمائش منعقد کرنے کی درخواست کی۔انہوں نے تجویز دی کہ ہمسایہ ملکوں کا ایک بلاک بنایا جائے جس میں چین افغانستان پاکستان روس اور ایران ( کیپری) شامل ہوں اور پابندیوں کی صورت میں چین کو میڈیم کے طور پر استعمال کرتے ہوئے افغانستان کی حمایت کی جائے۔انہوں نے کہا کہ پاکستان کو تیل کی شدید قلت کا سامنا ہے لیکن بدقسمتی سے ہم ایران سے تیل درآمد نہیں کر سکتے انہوں نے پڑوسی ملکوں بالخصوص ایران کے ساتھ اچھے تعلقات کی ضرورت پر زور دیتے ہوئے کہا کہ چابہار اور گوادر کو سسٹرز پورٹس ہونا چاہئے اور اگر ایسا کیا گیا تو ہم حیرت انگیز کام کر سکتے ہیں۔ایران پاکستان گیس پائپ لائن ایک عظیم منصوبہ ہے اورکچھ کاروباری ٹائیکون بھی پائپ لائن کی مالی اعانت کے لیے تیار ہیں۔ایران 75 فیصد چاول بھارت سے اور صرف 10 فیصد پاکستان سے درآمد کرتا ہے جس پر نظر ثانی کی ضرورت ہے۔