اسلام آباد/لاہور (کورٹ رپورٹر/بیورو رپورٹ)
توشہ خانہ کیس میں اسلام آباد کی سیشن عدالت کی جانب سے 3 سال قید کی سزا سنائے جانے کے بعد پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے چیئرمین کو لاہور سے گرفتار کر لیا گیا۔ فیملی ذرائع کے مطابق پولیس نے چیئرمین پی ٹی آئی کو لاہور سےان کی رہائش گاہ زمان پارک سے گرفتار کیاہے۔ذرائع کے مطابق پولیس چیئرمین پی ٹی آئی کو لاہور سے اسلام اباد لے جائے گی۔ذرائع نے چیرمین پی ٹی آئی کو اسلام آباد لے جانے سے پہلے کوٹ لکھپت منتقل کیےجانےکا امکان بھی ظاہر کیا ہے۔ اسلام آباد میں پولیس کی جانب سے مختلف ناکوں پر اضافی نفری تعینات کر دی گئی ہے۔ذرائع کا بتانا ہے کہ پولیس نے شہر میں سرگرم پی ٹی آئی کارکنان کی فہرستیں تیار کر لی ہیں، ممکنہ احتجاج کی صورت میں کارکنان کے خلاف کریک ڈاؤن کا امکان ہے۔چیئرمین پی ٹی آئی کی گرفتاری سپریم کورٹ میں چیلنج کرنے کا اعلان
دوسری جانب پاکستان تحریک انصاف نے چیئرمین کی گرفتاری کو اعلیٰ عدالت میں چیلنج کرنے کا اعلان کر دیا۔
ترجمان پی ٹی آئی کے مطابق توشہ خانہ مقدمے کے ذریعے نظامِ عدل کی پیشانی پر ایک اور سیاہ دھبّہ لگایا گیا اور تاریخ کے بدترین ٹرائل میں انصاف کے قتل کی کوشش کی گئی۔ترجمان کا کہنا ہے کہ سیشن عدالت کا فیصلہ سیاسی انتقام اور سیاسی انجینئرنگ کی بدترین مثال ہے۔توشہ خانہ کیس میں چیئرمین پی ٹی آئی کو تین سال قید کی سزا سنا دی گئی سیشن کورٹ میں توشہ خانہ کیس کے قابل سماعت ہونے کے معاملے پر سماعت ہوئی۔سیشن عدالت نے توشہ خانہ کیس میں چیئرمین پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کو تین سال قید کی سزا سنا دی۔جج ہمایوں دلاور نے فیصلہ سناتے ہوئے کہا کہ توشہ خانہ کیس میں چیئرمین پی ٹی آئی پر الزامات ثابت ہوتے ہیں، ان پر جھوٹے اثاثے ظاہر کرنے کا الزام ثابت ہوا۔
انہوں نے کہا کہ چیئرمین پی ٹی آئی کو 3سال کی سزا سنائی جاتی ہے، ان کے گرفتاری کے وارنٹ نکالے جاتے ہیں۔جج نے کہا کہ چیئرمین پی ٹی آئی پر ایک لاکھ روپے جرمانہ عائد کیا جاتا ہے، قابلِ سماعت ہونے کی درخواست مسترد کی جاتی ہے۔چیئرمین پی ٹی آئی کے خلاف توشہ خانہ کیس کا تحریری فیصلہ جاری کر دیا گیا۔ایڈیشنل سیشن جج ہمایوں دلاور نے 4 صفات پر مشتمل تحریری فیصلہ جاری کیا۔تحریری فیصلے میں کہا گیا ہے کہ ملزم کی جانب سے کیس قابل سماعت ہونے کی درخواست پر کسی نے بحث نہیں کی، 5 مئی اور 8 جولائی کو قابلِ سماعت ہونے کے دلائل پر درخواست مسترد کی جاتی ہے۔
فیصلے میں کہا گیا ہے کہ شکایت کنندہ نے تسلی بخش شواہد پیش کیے، شکایت کنندہ کے دیے شواہد سے چیئرمین پی ٹی آئی کے خلاف الزامات ثابت ہوتے ہیں۔سماعت میں تین بار وقفہ کیا گیا چیئرمین پی ٹی آئی کے وکیل نعیم پنجوتھا ضلعی کچہری پہنچے جس کے بعد تھوڑی دیر بعد خواجہ حارث بھی عدالت پہنچ گئے۔کیس کی سماعت شروع ہوئی تو خواجہ حارث نے کہا کہ کیا مجھے کچھ کہنے کی اجازت ہے؟ میں آپ کے خلاف ٹرانسفر درخواست دائر کر رہا ہوں۔اس سے قبل سیشن عدالت میں توشہ خانہ کیس کی سماعت تیسرے وقفے کے بعد دوبارہ شروع ہوئی۔جج ہمایوں دلاور نے سوال کیا کہ کوئی پیش ہوا یا نہیں ۔انہوں نے کہا کہ میں فیصلہ محفوظ کرتا ہوں، ساڑھے بارہ بجے سناؤں گا۔الیکشن کمیشن کے وکیل امجد پرویز نے عدالت کو بتایا کہ احتساب عدالت میں ہمارا وکیل 11:30 بجے گیا تھا، نائب کورٹ نے بتایا کہ نہ ملزم پیش ہوا ہے نہ وکیل پیش ہوا، سیشن عدالت سے غلط بیانی کی گئی ہے۔سماعت کے آغاز پر جج کا PTI کے وکیل سے متعلق سوال سماعت کے آغاز میں جج ہمایوں دلاور نے سوال کیا کہ کیا کوئی پی ٹی آئی کی جانب سے وکیل آیا ہے؟جج ہمایوں دلاور کی جانب سے توشہ خانہ کیس متعدد بار کال کیا گیا۔’پہلی کال پر ملزم نہ آئے تو ناقابلِ ضمانت وارنٹ گرفتاری جاری ہوتے ہیں‘
جج نے کہا کہ اسلام آباد ہائی کورٹ کے فیصلے کی روشنی میں 12بجے تک وقفہ کیا جاتا ہے، خواجہ حارث 12 بجے تک پیش نہ ہوئے تو سنے بغیر فیصلہ سنا دیا جائے گا۔انہوں نے کہا کہ پہلی کال پر ملزم نہ آئے تو ناقابلِ ضمانت وارنٹ گرفتاری جاری ہوتے ہیں۔سیشن عدالت کے جج ہمایوں دلاور نے الیکشن
جج ہمایوں دلاور نے اوپن کورٹ میں اب تک کی سماعت کی کارروائی لکھوا دی۔
انہوں سماعت تحریر کراتے ہوئے کہا کہ چیئرمین پی ٹی آئی کی جانب سے کوئی وکیل دوسری کال پر بھی عدالت پیش نہ ہوا۔جج ہمایوں دلاور نے دوسری بار سماعت کے دوران پی ٹی آئی وکلاء کی غیرحاضری درج کرائی۔ واضح رہے کہ گزشتہ روز اسلام آباد ہائی کورٹ نے توشہ خانہ کیس قابلِ سماعت ہونے کا سیشن کورٹ کا فیصلہ کالعدم قرار دے دیا تھا۔اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس عامر فاروق نے کہا تھا کہ سیشن کورٹ فریقین کو دوبارہ سن کر کیس کے قابلِ سماعت ہونے کا فیصلہ کرے۔اسلام آباد ہائی کورٹ نے چیئرمین پاکستان تحریک انصاف کی توشہ خانہ کیس دوسری عدالت منتقل کرنے کی درخواست مسترد کر دی تھی۔عدالت نے کہا تھا کہ ایڈیشنل سیشن جج ہمایوں دلاور ہی کیس کی سماعت کریں گے۔چیئرمین پی ٹی آئی کے وکلاء کو حتمی دلائل کے لیے ٹرائل کورٹ میں پیش ہونے کا پابند کیا تھا