اسلام آباد(کورٹ رپورٹر) سپریم کورٹ نے فوجی عدالتوں میں آرمی ایکٹ کے تحت عام شہریوں کے ٹرائل کے خلاف کیس میں فل کورٹ بنانے کی استدعا ایک بار پھر مسترد کردی ہے، کیس کی سماعت کے موقع پر چیف جسٹس آف پاکستان نےریمارکس دیئے ہیں کہ ستمبر تک فل کورٹ بینچ دستیاب نہیں ہے، لارجر بینچ بنا کر مقدمے کی سماعت کرنا ناممکن ہے، کسی کو پسند ہو یا نہ ہو ہم اپنا کام جاری رکھیں گے۔بدھ کو عدالت عظمی میں معاملہ کی سماعت چیف جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں چھ رکنی لارجر بینچ نے کی۔سماعت کے آغاز پر چیف جسٹس نے اٹارنی جنرل سے استفسار کیا کہ کیا آپ کچھ کہنا چاہتے ہیں؟ اٹارنی جنرل نے کہا کہ گرفتار افراد کی فیملیز سے ملاقات سمیت تمام یقین دہانی ہم کروا چکے ہیں۔ ہم نے یہ بھی یقین دہانی کروائی ہے کہ کسی شخص کو سزائے موت یا عمرقید نہ ہو، تمام 102 افراد کے وقار اور احترام کی ضمانت دی جاتی ہے، کسی کے ساتھ برا برتاونہیں ہوا۔ ملزمان کو صحت سمیت تمام سہولیات میسر ہیں، ملزمان کے خلاف ناروا سلوک ہوا تو ایکشن ہوگا۔ چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے ریمارکس دیئے کہ ہم نے فل کورٹ کی تشکیل پر مشاورت کی ہے۔ ستمبر تک فل کورٹ بینچ دستیاب نہیں ہے، ہم نے ماضی میں دیکھا ہے اس طرح کے حالات میں فل کورٹ تشکیل ہوئے مگر فعال نہ رہ سکے،لارجر بینچ بنا کر مقدمے کی سماعت کرنا تو ناممکن ہے۔چیف جسٹس نے مزید ریمارکس دیئے کہ جہاں پر دلائل رکے تھے وہاں سے ہی شروع کردیں، اپنا کام جاری رکھیں گے کوئی پسند کرے یا نہ کرے، ملک میں کون سا قانون چلے گا یہ فیصلہ عوام کریں گے، ہم نے کام ٹھیک کیا یا نہیں تاریخ پر چھوڑتے ہیں۔ ہمیں تنقید کی کوئی پرواہ نہیں، ہم صرف اللہ کو جوابدہ ہیں۔اٹارنی جنرل نے دلائل کا آغاز کرتے ہوئے کہا کہ سویلینز کو اپیل کا حق دینے کے معاملے پر 4 معاملات کو بغور دیکھنا ہوگا، دیکھنا ہوگا کہ سازش میں شامل غیر ملکی افراد اس حق کے اہل ہوں گے یا نہیں، یہ بھی دیکھنا ہوگا کہ فوجی تنصیبات پر حملہ کرنے والے سویلینز پر آرمی ایکٹ کا اطلاق ہوتا ہے یا نہیں، گزشتہ سماعت پر جسٹس منیب اختر نے کہا تھا کہ حکومت جانے والی ہے تو اٹارنی جنرل کیسے یقین دہانی کرا سکتا ہے، اس وجہ سے براہ راست جی ایچ کیو سے ہدایات لی ہیں، ممکن ہے کہ ایک ہفتے بعد میں اور حکومت یہاں نہ ہوں اس لیے ڈائریکٹ ہدایات لی ہیں۔ جس کے بعد کیس کی سماعت ائندہ کل تک ملتوی کردی گئی ۔