کراچی ( نمائندہ خصوصی) پاک سرزمین پارٹی کے چیئرمین سید مصطفی کمال نے کہا ہے کہ جب پاکستان کی معاشی شہ رگ کراچی میں را کا تسلط تھا تب پاکستان سے جڑنے والے اور شہر میں قیام امن کی خاطر بہت بڑی تعداد میں نوجوانوں نے اسلحہ اداروں کے حوالے کیا، تب ان نوجوانوں کی بہت قدر تھی لیکن بعد میں آنے والے ریاست کے عہدے داران کو جب شہر میں امن ملا تو انہوں نے ان نوجوانوں کی قربانیوں کو نظر انداز کردیا۔ جن لڑکوں کو دہشتگرد کہا جاتا ہے انہی کی وجہ سے آج شہر کا امن قائم ہے جنہوں نے ماضی کی زیادتیوں کو بھلا کر ریاست کے ساتھ کھڑے ہونے کا فیصلہ کیا۔ اب ریاست کو سوچنا ہے کہ وہ ان کے ساتھ کیا سلوک کر رہی ہے، ہر آنے والا نیا افسر ہمارے سامنے فائلیں نکال کر اپنی افسری جھاڑتا ہے، لگتا ہے کہ ادارے کی اپنی کوئی پالیسی یا یاداشت نہیں، شخصی پسند نا پسند پر فیصلے کیئے جاتے ہیں۔ سب قربانیوں کے بعد باہر سے ایک دہشتگرد تنظیم کو شہر کے نوجوانوں کو مارنے کے لیے لایا گیا ہے، اگر ہمیں گولی ہی پڑوانی ہے تو کسی دہشتگرد کو باہر سے لاکر گولی نا پڑوائیں پھر میں الطاف حسین کے ہاتھوں مرنے کو ترجیح دوں گا۔ ہماری برداشت کا مزید امتحان نہ لیا جائے۔سانحہ پکا قلعہ 26، 27 مئی 1990 میں بچوں کا دودھ مانگنے کیلئے سر پر قرآن رکھ کر گھر سے نکلنے والی عورتوں کو گولیوں سے چھلنی کر دیا گیا ان کی لاشوں پر پیر رکھ کر فتح کا جشن منایا گیا، آج بھی ان کی قبریں ہیں۔ سانحہ حیدرآباد 30 ستمبر 1988 حیدرآباد سٹی اور لطیف آباد کے کئی درجن مقامات پر اردو بولنے والی آبادی کے گنجان آباد علاقوں کو ہدف بنایا گیا، 300 سے زائد افراد لقمہ اجل بن گئے، 14 دسمبر 1986 کو سانحہ قصبہ علی گڑھ میں مہاجر آبادی میں 6 سے 7 گھنٹے تک مسلح افراد بچوں کو آگ میں پھینکتے رہے، گھروں کو جلاتے رہے، عورتوں کی عزتیں پامال کرتے رہے، گھنٹوں پولیس نہیں پہنچی۔ ایسے سینکڑوں واقعات ہیں جن کے نتیجے میں ایم کیو ایم وجود میں آئی اور الطاف حسین نے کہا کہ ریڈیو بیچو اسلحہ خریدو، ریاست نے تب اپنی زمہ داری پوری نہیں کی اور مجبورا مہاجروں کو اپنی بقا کی جنگ لڑنے کے لئے اسلحہ پکڑنا پڑا۔ اردو بولنے والے دہشتگرد نہیں تھے، وہ ریاستی ظلم و جبر کا شکار تھے۔
آج ہمیں مہاجر لڑکوں کی جے آئی ٹی دکھانے والے افسران بتائیں ان میں سے کس سانحہ کا انصاف ان خاندانوں کو ان کے ادارے نے دلوا دیا ہے۔ پہلے پی ٹی آئی کو مسلط کیا گیا اب ایک کالعدم تنظیم ٹی ایل پی کو اسلحہ دے کر مسلط کیا جا رہا ہے۔ 2018 کے تجربے کے بعد ہم نے اپنے ووٹوں کی چوری روکنے کے لیے سافٹ ویئر بنایا۔ یہ سافٹ ویئر ہم نے این اے 249 اور کنٹونمنٹ میں استعمال کیا جس میں نتیجے اور ہماری کیلکولیشن میں 50 ووٹ کا فرق تھا۔ 2 مہینے کی عوامی رابطہ مہم میں لوگوں نے بھرپور سراہا، مخالفین نے بھی دروازے کھول دیے۔ پاک سرزمین پارٹی کو 13927 ووٹ ڈالے گئے تھے۔ ہمارے پاس اپنے ووٹرز کے شناختی کارڈ نمبر، پولنگ اسٹیشن، پولنگ بوتھ اور ووٹ ڈالنے کا وقت موجود ہے۔ جسے چیلنج کے ساتھ کہتا ہوں کہ ان میں سے ہر شخص کو شناختی کارڈ سمیت پیش کع دوں گا۔ پاکستان معاشی طور پر نازک دور سے گزر رہا ہے ایسے میں اس کی معاشی شہہ رگ کے ساتھ یہ کھلواڑ کیا جا رہا ہے۔ میرے ساتھی شہید اور زخمی ہوئے اور میرے ہی ساتھیوں کے گھروں پر چھاپے مارے جا رہے ہیں۔ پولیس خانہ پوری کر رہی ہے، ایک ویڈیو یا تصویر دکھائیں جس میں پی ایس پی کے کسی لڑکے کے پاس اسلحہ ہو۔ جنرل باجوہ کو کہتا ہوں اس سب کو رکوائیں ورنہ بتائیں یہ ہماری مرضی سے ہو رہا ہے۔ ہم کسی سے بھیک نہیں مانگ رہے بلکہ انصاف مانگ رہے ہیں۔ ہم نے یہ فیصلہ کیا ہے کہ اس شہر پر باہر سے لا کر کسی کو قبضہ نہیں کرنے دیں گے اب کوئی مجبوریاں نہیں ہیں۔ اس شہر میں تباہی ہوئی تو شہر نہیں ملک تباہ ہوگا۔ اس شہر کے لوگوں کو اس شہر کا فیصلہ کرنے دیں، ہر مرتبہ نئے تجربات نہیں کریں۔ ان خیالات کا اظہار انہوں نے پاکستان ہاس کے باہر کارکنان کے جنرل ورکرز اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔ انہوں نے مزید کہا کہ کراچی کو مقبوضہ کراچی کہا جاتا تھا۔ 35 سالوں سے آرمی کا آپریشن جاری تھا لوگ مرنا بند نہیں ہوئے تھے۔ روزانہ اوسطا 22 لوگ مرتے تھے کبھی کہیں کبھی کہیں فائرنگ ہوتی تھی۔ جب تک الطاف حسین کے ساتھ رہے نیک نیتی اور کنوکشن کے ساتھ رہے لیکن جب اختلاف ہوا عہدے چھوڑ دیئے۔ ہمارے کہنے پر کراچی کے نوجوانوں نے اپنے ہاتھوں سے ہتھیار جمع کرائے۔ ٹی وی پر خبر چلتی تھی کہ اسلحہ پکڑا گیا جبکہ لڑکے خود دیتے تھے۔ جب جب کشمیر کی آزادی کی جدوجہد زور پکڑتی کراچی کے حالات خراب کر دیئے جاتے۔ ریاست کو کہا جیسے بلوچستان کے نوجوانوں کو پہاڑوں سے اتار کر ایک موقع دیتے ہیں ویسے ہی کراچی کے نوجوانوں کو دیں۔
خود ریاست چلانے والے مانتے تھے کہ آپریشن سے کبھی کہیں امن نہیں ہوا۔ ہماری جدوجہد سے تمام قومیتوں کے بولنے والے پاک سرزمین پارٹی کے جھنڈے اور نظریے پر آگئے۔ 6 سال سے شہدا قبرستان میں لاش نہیں گئی، کوئی بسوں سے اتار کے نہیں مارا جاتا لیکن نئے آنے والے ریاستی افسران پچھلے سب حالات بھول گئے۔ انہیں امن ملا تو وہ یہ بھول گئے کہ پہلے حالات کیسے تھے۔ جب یہ لڑکے ہتھیار اٹھا کر کھڑے تھے تب ہماری منتیں کی جاتی تھیں کہ انہیں ٹھیک کریں۔ اب لڑکوں نے ہتھیار دے کر ریاست کے ساتھ کھڑے ہونے کا فیصلہ کیا تو انہیں شک کی نگاہ سے دیکھا جانے لگا۔ ہمیں کہا جاتا ہے کہ یہ سدھریں گے بھی یا نہیں، ان پر ریڈ لائن ہے۔ اسلام میں بھی پچھلے حالات کو معاف کر کے آگے بڑھنے کا حکم ہے۔ حضرت محمد ﷺ نے حضرت عمر خطاب رضی اللہ تعالی عنہ اور عمد بن ہشام ابو جہل کیلئے ہدایت کی دعا مانگی۔ جب اللہ پاک نے حضرت عمر بن خطاب کے حق میں نبی کریم محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی دعا قبول فرمائی تو انکی جے آئی ٹی نہیں بنائی گئی پھر حضرت عمر رض نے چھ براعظموں پر اسلام کا جھنڈا لہرایا۔ حضرت خالد بن ولید رضی اللہ تعالی عنہ غزوہ احد میں مسلمانوں کی شکست کی وجہ بنے۔ جب مسلمان ہوئے تو مسلمانوں نے ان کی کوئی جے آئی ٹی نہیں بنائی۔ بعد میں سیف اللہ کا لقب ملا۔ قائد اعظم ہندوں کی جماعت کانگریس میں تھے، مسلم لیگ میں آئے تو مسلمانوں نے جے آئی ٹی نہیں بنائی۔ آج قائد اعظم محمد علی جناح بابائے قوم ہیں۔ علامہ اقبال نے جب پاکستان کا خواب دیکھا تو انسے نہیں پوچھا گیا کہ آپ تو ہندوستان کے بلبلیں اور ہندوستان آپ کا چمن تھا۔ ہماری برداشت کا امتحان نا لیا جائے۔ چئیر مین پی ایس پی سید مصطفی کمال نے اپنی تقریر کے آغاز میں پاک سرزمین پارٹی کے شہید کارکن سیف الدین کے درجات کی بلندی اور لواحقین کے لیے صبر جمیل کی دعا کرتے ہوئے مزید کہا کہ چیئرمین مہاجر قومی موومنٹ آفاق احمد کا شکریہ ادا کرتا ہوں۔ واقع کی رات مہاجر قومی موومنٹ کا وفد آیا اور جنازے میں شرکت کی۔ ایم کیو ایم کے ایم این اے ابو بکر کا بھی دکھ کی گھڑی میں ساتھ کھڑے ہونے پر شکریہ ادا کرتا ہوں۔ ہمارے آنے سے پہلے شہر کے علاقے بٹے ہوئے تھے، ہم نے اس لیے پی ایس پی نہیں بنائی کہ ایم کیو ایم کو ہروانا ہے بلکہ ایم کیو ایم ہر حکومت کا حصہ تھی اس کے باوجود شہری بنیادی سہولیات کیلئے ترس گئے۔ ہم نے پی ایس پی اس لیے بنائی کہ میرا شہر اور میرا ملک بلک رہا تھا۔ اس شہر کو دنیا کے تیزی سے 12 ترقی کرنے والے شہروں میں شامل کرایا۔ وسائل والی پارٹیوں کو چھوڑ کر ہمارے کارکنان پیدل گھر گھر گئے ہماری پارٹی کا پیغام دیا۔ 2018 میں ارشد وہرا اور میں واضح برتری سے آگے تھے نتائج ٹی وی پر چل رہے تھے۔ اس کے بعد آر ٹی ایس سسٹم بیٹھ گیا تین دن تک کراچی کے نتائج نہیں آئے۔ کراچی کی 14 سیٹیں پی ٹی آئی کو دے دی گئیں۔ پیپلز پارٹی اور پی ٹی آئی کے معاملات طے کرا دیئے کہ صرف بیانات دیں لیکن ایک دوسرے کو چھیڑیں نہیں۔ ایم کیو ایم کو حکومت میں شامل کرا دیا۔ ڈی جی رینجرز کا شکریہ ادا کرتا ہوں جو بھی داد رسی کی قانونی مدد فراہم کی انہوں نے کی۔ تحقیقات ہونی چاہیے کہ کس کا فیصلہ تھا کہ رینجرز پولنگ اسٹیشن پر کھڑی نہ ہو۔ پولیس نے اب تک کوئی رابطہ نہیں کیا، صرف گرفتاریاں کر رہی ہے۔ اس موقع پر پارٹی صدر انیس قائم خانی نے کہا کہ لاہور بھی ہمارا شہر ہے لیکن کراچی میرا گھر ہے ہم اس کے در و دیوار سے واقف ہیں۔ ہمارے کارکن کو شہید کیا گیا جوائنٹ سیکریٹری کو دو گولیاں لگیں۔ چئیر مین پی ایس پی سید مصطفی کمال خود زخمی ہوئے اور اب ہم سے ہی شکوہ کیا جا رہا ہے کہ ہم کچھ بولیں بھی نہیں۔ حالات کو اس جانب نہ دھکیلا جائے جہاں سے بہت مشکلوں سے قربانیاں دے کر ہم نے شہر کو نکالا ہے۔ ہم دہشتگردوں سے ڈر کر جھکنے یا چھپنے والے نہیں، را سے نہیں ڈرے تو ان چند مٹھی بھر دہشتگردوں کا بھی قانون میں رہ کر مقابلہ کرنا جانتے ہیں۔ میرپور خاص میں ہزاروں لوگوں کے جتھوں نے ہم پر حملہ کیا لیکن سید مصطفی کمال نے انہیں معاف کر دیا۔ دوبارہ گئے تو ہزاروں لوگوں نے پھول نچھاور کئے۔ اس موقع پر بھی سید مصطفی کمال نے گولی لگنے کے باوجود حالات کو پر امن رکھا۔ ہم سے دھمکی دینے کا شکوہ کیا جا رہا ہے لیکن اپنا عمل نہیں دیکھ رہے۔