لاہور/اسلام آباد(نمائندہ خصوصی/ بیورو رپورٹ)
اسلام آباد میں سول جج کے گھر میں تشدد کی شکار ملازمہ بچی کے مقدمے میں وحشیانہ تشدد اور جسمانی اعضا توڑنے کی دفعہ 328 اے شامل کرلی گئی۔اس سےپہلے ایف ائی آر میں لگائی گئی دفعات قابل ضمانت تھیں، دفعہ 328 اے میڈیکل رپورٹ کی روشنی میں لگائی گئی ہے۔کیس میں جج کی اہلیہ پر بچی پر تشدد کرنے کاالزام ہے، ملزمہ پہلے ہی عدالت سے حفاظتی ضمانت لے چکی ہے۔پولیس نے لاہور کے جنرل اسپتال میں زیر علاج بچی اور اس کے والد کا بھی بیان ریکارڈ کرلیا ہے۔وزیر اعظم کی معاون خصوصی شزا فاطمہ کا کہنا ہے کہ ملزمہ کو ضمانت ملنا افسوسناک ہے، ایف آئی آر میں درج دفعات کو بہتر کرنے کی ضرورت ہے، بچی کی حالت ابھی بہتر نہیں ہوئی۔ انہوں نے ایف آئی آر میں اقدام قتل کی دفعات شامل کرنے کا مطالبہ کیا۔تشدد کی شکار بچی کا معاملہ 24 جولائی کو سامنے آیا تھا، بچی کی ماں نے جج کی اہلیہ پر تشدد کا الزام لگایا تھا، جب بچی کو اسپتال پہنچایا گیا تو اس کے سر کے زخم میں کیڑے پڑچکے تھے اور دونوں بازو ٹوٹے ہوئے تھے اور وہ خوفزدہ تھی۔تشدد کا نشانہ بننے والی رضوانہ خوف کے مرض کا شکار ہوگئی ہے۔ کوئی بھی قریب آئے، پکار اٹھتی ہے، ’مجھے نہ مارو، مجھے نہ مارو‘۔ وہ اتنی سہم گئی ہے کہ والدین کو دیکھ کر بھی خوش نہیں ہو پاتی۔طویل عرصے علاج نہ ہونے سے سر کے زخم میں کیڑے پڑگئے ہیں، سر کا انفیکشن آنکھوں میں اتر گیا، گردے اور جگر بھی متاثر ہوگئے۔اسلام آباد پولیس گھریلو ملازمہ پر انسانیت سوز تشدد کرنے والی سول جج کی اہلیہ ملزمہ کو گرفتار کرنے میں اب تک ناکام ہے۔ زخمی بچی کے والد نے پولیس پر مقدمہ ختم کروانے کیلئے دباؤ ڈالنے کا الزام لگا دیا، پولیس نے الزام مسترد کردیا۔سول جج کے والد اپنی بہو اور بیٹے کو بچانے کےلیے سرگرم ہوگئے اور تشدد کا شکار ہونے والی بچی رضوانہ کے والد کو صلح کی پیشکش کی تھی۔رضوانہ کی والدہ کے مطابق جج صاحب نے کہا تھا کہ وہ علاج کا سارا خرچہ اور الگ سے بھی رقم دینے کو تیار ہیں، جج صاحب کی پیشکش کے بعد میں نے اُن پر واضح کردیا ہے کہ مجھے اپنی بیٹی پر تشدد کا انصاف چاہیے۔انہوں نے یہ بھی کہا کہ ہماری بچی کی صورتحال بہت نازک ہے، ہم صلح کسی صورت نہیں چاہتے، جج صاحب کو کہا کہ آپ عدالتوں میں انصاف کرتے ہیں آج اپنے کیس میں بھی انصاف کریں۔دریں اثناء
وزیراعظم شہباز شریف کی معاون خصوصی شزا فاطمہ خواجہ اور چیئرمین چائلڈ رائٹس عائشہ رضا نے جنرل اسپتال میں تشدد کی شکار بچی رضوانہ کی عیادت کی۔اس موقع پر عائشہ رضا نے مطالبہ کیا کہ رضوانہ کے ملزمان پر درج ایف آئی آر میں اقدام قتل کی دفعات شامل ہونی چاہئیں۔میڈیا سے گفتگو میں شزا فاطمہ خواجہ نے کہا ہے کہ گھریلو ملازمہ بچی پر تشدد کی ملزم کو ضمانت ملنا غلط ہے، جو کچھ رضوانہ کے ساتھ ہوا وہ ناقابل برداشت ہے۔انہوں نے کہا کہ پنجاب میں 15 سال سے کم عمر کو گھریلو ملازم رکھنا خلاف قانون ہے، رضوانہ پر تشدد کی ملزم کو ضمانت مل جانا افسوسناک ہے۔شزا فاطمہ نے مزید کہا کہ آج رضوانہ کو انصاف دلانے میں ناکام ہوئے تو کل ہماری بچیوں کے ساتھ بھی ہوسکتا ہے، تشدد کی شکار بچی کی حالت ابھی بہتر نہیں ہوئی۔اُن کا کہنا تھا کہ بیٹیاں تو سانجھی ہوتی ہیں، جنگ میں بھی خواتین اور بچوں کا خیال کیا جاتا ہے۔وزیراعظم کی معاون خصوصی نے یہ بھی کہا کہ ملزمان پر درج ایف آئی آر پر بچی کے اہل خانہ کے تحفظات ہیں، ملزمان پر درج ایف آئی آر میں دفعات ٹھیک کرنے کی بھی ضرورت ہے۔انہوں نے کہا کہ جو کچھ رضوانہ کے ساتھ ہوا وہ ناقابل برداشت ہے، ہم مظلوم فیملی کے ساتھ ہیں، پولیس مقدمے کی دفعات کو مزید بہتر کرے۔شزا فاطمہ نے کہا کہ قانون والدین کو بھی روکتا ہے کہ وہ کم عمر بچوں کو ملازمت پر نہ رکھوائیں، ملکی معیشت بہتر ہوئے بغیر یہ سلسلہ نہیں رک سکتا۔چیئرپرسن چائلڈ رائٹس عائشہ رضا نے کہا کہ ملزم جتنا بھی بااثر کیوں نہ ہو، ہم اسے کیفرکردار تک پہنچائیں گے۔انہوں نے مزید کہا کہ مقدمے میں اقدام قتل کی دفعات شامل کی جائیں، ہم اس فیملی کو قانونی مدد بھی فراہم کریں گے۔