کراچی (تحریر:آغاخالد)
سندھ میں کب تک سسٹم یونہی چلتا رہے گا؟ یہ آج کل صوبے کا سلگتا ہوا سوال ہے جس نے ہر شہری اور دیہی باشندے کو تشویش میں مبتلا (کررکھا ہے اور اب یہ تشویش "5 کور” سے ہوتی ہوئی "حافظ صاحب” تک پہنچ گئی ہے جہاں اس عوامی اضطراب کو محسوس کرتے ہوے کچھ تلخ فیصلے کئے جارہے ہیں قوم کو اگست کے دوسرے یا تیسرے ہفتے سے سندھ میں تبدیلیاں دیکھنے کوملیں گی اور انتخابات تو شاید قوم دوسال تک نہ دیکھ سکے تاہم سسٹم کی موت قوم ضرور اپنی آنکھوں سے دیکھ لے گی کیونکہ ملک کی بیمار معاشی صورت حال کو سامنے رکھ کر مستقبل کی پالیسیاں ترتیب دی جارہی ہیں اور ان پالیسیوں میں تاجروں اور صنعتکاروں کو بہت اہمیت حاصل ہوگی جبکہ سندھ میں تاجر،صنعتکار اور شعبہ تعمیرات سب سے زیادہ سسٹم کے متاثرین میں شامل ہیں ان کی زمینوں پر قبضوں کا سلسلہ تو 7 سال سے جاری تھا ہی اب صنعتوں اور تاجروں کے کاروبار کو بھی نہیں چھوڑا جارہا جبکہ کراچی میں بلڈرز کی نمائندہ تنظیم آباد نے سسٹم اور عدالتوں کے مسلسل عداوت پر مبنی فیصلوں کی وجہ سے 3 سال سے تعمیراتی سرگرمیوں کو تالا لگا رکھاہے جس سے صوبے کا بڑا نقصان ہورہاہے آباد کے سرپرست محسن شیخانی کے طویل ہڑتال کے اعلان کے بعد اربوں روپیہ دبئی لاہور اور اسلام آباد منتقل ہوا ہے جس سے کراچی شہر میں 10 لاکھ لوگ جوکسی نہ کسی طرح اس کاروبار سے وابستہ تھے متاثر ہوے ہیں اور بے روزگاری کے ایک سیلاب کی آمد سے شہر میں جرائم کی بڑی لہر محسوس کی جارہی ہے ذرائع کادعوا ہے کہ نگراں دور میں سسٹم کے خلاف اصل کاروائیاں چیف سیکریٹری اور آئی جی پولیس کے ذریعے کی جائیں گی جو موجودہ حکومتوں کے مستعفی ہونے اور نگرانوں کے حلف کے ایک ہفتے کے اندر تعیناتیاں ہونگی اور ان تعیناتیوں کو الیکشن کمیشن کی حمایت حاصل ہوگی جسے نگراں دور میں خصوصی اجتیارات حاصل ہوجاتے ہیں دراصل وزیر اعظم اور وزرائے اعلی کے اصل اختیارات الیکشن کمیشن کو منتقل ہوجاتے ہیں جبکہ نگراں نمائشی عہدہ ہو تاہے اس طاقت سے سندھ میں خصوصا اور ملک بھر میں عموما بدعنوانی اور بد انتظامی کے خلاف کچھ سخت کاروائیاں ہونگی تاہم سندھ پر خصوصی فوکس رکھا گیاہے جہاں کوئی کام سسٹم کو خوش کئے بغیر ممکن نہیں سسٹم اب صوبے میں اتنا طاقت ور ہوچکاہے کہ اکثر وزراء اور وزرائے اعلی بھی اس کے سامنے بے بس نظر آتے ہیں اس کی مثال یوں لےلی جئے کہ سندھ بلڈنگ کنٹرول اتھاریٹی میں وزیر اعلی سید مراد علی شاہ نے اپنے کسی دوست کی فائل بھیجی مگر اس محکمہ میں سسٹم کے ذمہ دار 16 گریڈ کے ایک انسپکٹر نے فائل روک لی اور بغیر پیسوں کے فائل منظور کرنے سے متعلقہ افسران کو روک دیا اور وزیر اعلی کی سرزنش کو بھی اس انسپکٹر نے جوتے کی نوک پر رکھا، وزیر اعلی نے ڈی جی سندھ بلڈنگ یاسین شر کو براہ راست ہدایت جاری کیں انہوں نے متعلقہ ٹائون افسران کو طلب کرکے کیس کی سنگینی سے آگاہ کیا مگر تمام افسران نے اپنے سابقہ باس کے انجام کا حوالہ دیکر کام کرنے سے انکار کردیا واضع رہے کہ محکمہ کے سابق ڈائرکٹرجنرل اسحاق کھوڑو نے ڈی جی کے اختیارات استعمال کرنے کی غلطی کی اور اس کے بعد انہیں اس حالت میں دفتر چھوڑ کر بھاگنا پڑا کہ ان کاذاتی سامان بھی دفتر میں رہ گیا تھا ان کے تبادلے کے نوٹیفکیشن جو چند گھنٹوں میں جاری ہوگیا تھا کے بعد منت سماجت کرکے واپس لیا گیا سابق اور موجودہ ڈی جی کی تعیناتی بھی اسی سسٹم کنگ کے کہنے پر کی گئی تھی اس توہین پر سید مرادعلی شاہ نے پیچ و تاب کھاتے ہوے پارٹی چیرمین بلاول بھٹو سے شکایت کی جن کی اجازت سے 16 گریڈ کے سسٹم کنگ کے تبادلہ کانوٹی فکیشن چیف سیکریٹری کے سیکریٹری ایٹ سے ایڈیشنل چیف سیکریٹری نے جاری کیا یوں یہ سندھ سرکار کی تاریخ کا انوکھا تبادلہ تھا جسے محکمہ کے ڈائرکٹر ایڈمن کی بجائے 16 گریڈ کے بلڈنگ انسپکٹر کے تبادلہ کا نوٹی فکیشن صوبے کے مائی باپ کے ہاں سے جاری ہوا اس تبادلہ کا ایک اور مزاحیہ مگر چالاک پہلو یہ بھی ہے کہ مذکورہ سسٹم کنگ سرکاری ریکارڈ میں ڈیڑھ سال سے معطل ہے اور محکمہ کااصل ڈی جی بھی وہی ہے اور اگر کل کو پھر نیب جاگ جائے یا اسے ماضی کی طرح جگایا جائے گا تو ملزم کے پاس یہ ٹھوس عذر ہوگا کہ وہ تو اس عرصہ میں معطل تھا یوں بھی اس کے کسی فائل پر دستخط بھی تو نہیں اب آتے ہیں وزیر اعلی کے احکامات کی طرف جو لیرو لیر کیسے ہوے؟ سید مراد علی شاہ ذہین وزیر اعلی ہیں اور 10 سال سے صوبے کے حاکم اعلی ہیں انہیں آصف زرداری اور ان کے ہونہار بیٹے کا بیک وقت اعتماد حاصل ہے وہ جانتے ہیں کہ سسٹم سے متھا لگانے کا انجام کیاہوسکتا ہے اس لئے انہوں نے پہلے چیرمین کو اعتماد میں لیا اور پھر سسٹم کنگ کے تبادلہ کے ساتھ اسے زبانی پابند کیاگیا کہ وہ اگلے احکامات تک سندھ بلدنگ کنٹرول اتھاریٹی کے دفتر نہیں جائے گا اور روزانہ صبح ساڑھے 8 بجے سے دفتری اوقات کے اختتام تک سیکریٹری بلدیات کے دفتر میں حاضر رہے گا اس حکم کے باوجود محکمہ میں سکہ اسی "سسٹم کنگ "کا چل رہاہے اور کوئی فائل اس کی مرضی کے بغیر ہل نہیں سکتی اس کے بیسیوں کارندے ہرشاخ پر بیٹھے ہیں، دو ماہ قبل اسی سسٹم کنگ کا زرداری صاحب کے قریبی دوست ڈاکٹر عاصم سے بھی ضلع وسطی کی مالکی کا جھگڑا ہوا ایک دوسرے کے کارندوں کے خلاف مقدمات درج ہوے مگر جیتا 16 گریڈ کا سسٹم کنگ واضع رہے کہ سندھ بلڈنگ میں سب سے زیادہ کمائو ضلع وسطی (سینٹرل) ہے اس کے وسائل لوتنے کاجھگڑا اکثر ہوتا رہتاہے، صوبے میں ہر محکمہ کاحال اس سے ملتاجلتا ہی ہے اور یہاں کا باوا آدم ہی نرالا ہے یہی وجہ ہے کہ طاقت کے ایوانوں سے انصاف کی طلب میں روزانہ کی بنیاد پر گنٹیان بجانے والوں میں بعض صوبائی وزراء اور حزب اختلاف کے ساتھ حکمراں جماعت کے ارکان اسمبلی اور عہدیدار بھی شامل ہیں جبکہ عام آدمی کی چیخوں سے تو سوشل میڈیا بھرا پڑا ہے اسی طرح کے ایم سی، کے ڈی اے، ایم ڈی اے، ایل ڈی اے اور ڈی ایم سیز جیسے شہری اداروں کو بھی ٹھیکہ پر دیدیا گیاہے جبکہ سندھ حکومت کے محکموں اور اندرون سندھ تو اس سے بھی زیادہ براحال ہے مضمون کی طوالت کے خوف سے ان کی تفصیلات اگلی دفعہ سہی-