کراچی (رپورٹ۔اسلم شاہ)پیپلز پارٹی کا نیا کارنامہ اپنے میئر اور چیئرمین کے اختیارات سلب کردیئے ہیں،جن میں لازمی سروس کا ادارہ صحت بھی شامل ہے۔تعلیم کا شعبہ بھی میئر کراچی اورمنتخب بلدیاتی اداروں کی نگرانی نہیں ہو گا۔نئے بلدیاتی ایکٹ 2013ء کی ترامیم جاری کردی گئی ہے(دراصل یہ تمام ترامیم کراچی کے وسائل پر قبضہ کیلیئے کی گئی ہیں) جن میں سندھ حکومت نے صحت اور تعلیم کے شعبہ جات منتخب بلدیاتی اداروں سے ختم کر کے نئے میئر کراچی اور بلدیاتی چیئرمینوں کی مشکلات میں اضافہ کردیا ہے۔کے ایم سی سے 13بڑے ہسپتالوں میں دل کے تین ہسپتال سمیت تمام صحت اور ٹاون میونسپل سے تعلیمی اداروں کے شعبہ جات کے اختیارات اور نگرانی ختم کردی گئی ہے۔سندھ بلدیاتی ایکٹ 2013ء کی ترمیم شدہ لسٹ جاری کردی گئی ہے، اب تک ان شعبہ جات اور اس کے ملازمین کی خدمات منتقل نہیں کی گئی ہے(لیکن شنید ہے کہ جلد اس پر عمل درآمد کیا جائے گا اور یوں کراچی کے وسائل پر قبضے کا خواب پورا ہو جائے گا)۔ سابق میئر کراچی وسیم اختر اپنے چار سال کے دوران اختیارات نہ ہونے کا جواز پیش کرتے رہے تھے،لیکن اب پیپلز پارٹی نے اپنے(زبردستی کے بنائے گئے میئر) میئر اور چیئرمینوں کے اختیارات بھی سلب کرکے کراچی کے شہریوں کو بنیادی سہولیات سے ہی محروم کر کے اپنے پرانے بدلے چکا رہے ہیں نئے بلدیاتی قوانین کے تحت کے ایم سی(KMC) کے 13شعبہ جات میں تعلیم و صحت کے شعبہ جات کو کے ایم سی سے یکسر ختم کردیا گیا ہے۔جن میں شیڈول ٹو،سیکشن 72 پارٹ ون لازمی فنکشن میں نمبر پانچ میں شامل میڈیکل کالجز، ٹیچنگ، اسپشلائز ہسپتال بشمول کراچی میڈیکل اینڈ ڈینٹل کالج، عباسی شہید ہسپتال، سوبھراج میٹنری ہوم و ہسپتال، سرفراز شہیدرفیقی ہسپتال، اسپینسر آئی ہسپتال، لیپری ہسپتال، دیگر تین دل کے ہسپتال شامل ہیں۔ اس طرح تعلیم کے سیکشن 57،58 اور 59 کے تعلیم، لازمی ایجوکیشن، دیگر تعلیمی ادارے کے اختیارات کو یکسر ختم کر دیا گیا ہے۔ سیکشن 14 ایجوکیشن بھی مکمل طور پر ختم کردیا گیا ہے۔نئے ترمیمی ایکٹ میں سیکشن 72 پارٹ ون کا پانچ کو کالعدم کردیا گیا ہے۔ ترمیمی ایکٹ کے XXXII میں ترمیم کرتے ہوئے 24 دسمبر 2021ء کردیا گیا تھا،جو حال میں ہی ترامیم کو مسودہ میں شامل کردیا گیا ہے۔ KMC کے 13 ہسپتال سمیت دیگر 75 یونٹس، جن میں 89 سندھ حکومت سے ضم ہوئے تھے اور 64 ضلع کونسل کے صحت کے مراکز تھے۔61 ڈسپنسری ضلعی بلدیات،جن میں 1516بیڈ پر مشتمل ہسپتال شامل ہیں جن میں 285 بچوں کے ویکسین سینٹرز بھی شامل ہیں جن میں کراچی میڈیکل اینڈ ڈینٹل کالج، کراچی انسٹیٹیوٹ آف ہارٹ ڈیزیز جیسے نمایاں شعبے بھی شامل ہیں۔ صحت، فائر بریگیڈ،میونسپل سروسز بلدیہ عظمی کراچی کے لازمی سروسز کے ادارے ہیں جن کے اختیارات کو کسی حکمنامہ کے ذریعے سلب نہیں کیا جاسکتا ہے۔ واضح رہے کہ مشرف کے دور میں صحت کا شعبہ کالعدم سٹی ڈسٹرکٹ کراچی کے نگرانی میں کام کر رہا تھا،جسے مبینہ طور پر پیپلز پارٹی گذشتہ 15سالوں میں بلدیاتی اداروں بشمول بلدیہ عظمی کراچی کی آمدنی دن بدن بڑھانے، وسائل نچلی سطع پر منتقل کرنے کے بجائے صوبائی حکومت کا قبضہ کے منصوبے پر عملدآمد جاری ہے۔KMC کا ایک ادارہ کراچی انسٹیٹیویٹ ہارڈز ڈیزیز ہسپتال کا کنٹرول محکمہ صحت کے حوالے اور کراچی میڈیکل اینڈ ڈینٹل کالج، سوبھراج ہسپتال، گذدر آباد ہسپتال، گذری ہسپتال کے ساتھ پانچ دیگر زیر تعمیر ہسپتال بھی محکمہ صحت کے سپرد کیا جائے گا۔ نیپا چورنگی پر تعمیر ہونے والا ہسپتال پر پہلے ہی سندھ حکومت کا بورڈ آویزاں کردیا گیا ہے۔ KMC کا سب سے بڑا ہسپتال عباسی شہید ہسپتال کو بھی سندھ حکومت کے حوالے کرنے کی دو رائے موجود ہے، ایک حوالے کرنے اور دوسرا خراب صورتحال پر سپرد نہ کرنے کا عندیہ دیا گیا ہے۔ فوڈ ڈپارٹمنٹ کے شعبہ جات پر قبضہ ہوچکا ہے۔ معیاری اور بہتر کارکردگی دکھانے والا فوڈ لیب بند ہوچکا ہے، میٹ اور چکن کے دکانداروں کا لائینس پر بھی فوڈ ڈپارٹمنٹ پہلے ہی قبضہ کرچکا ہے، ویٹنری ڈپارٹمنٹ میں آمدنی بڑھانے کے بجائے انتہائی کم ہوچکی ہے۔لنک روڈ پر اربوں روپے کی آمدنی ٹول ٹیکس پر بلدیہ ملیر نے قبضہ کرلیا ہے۔ٹول ٹیکس، لنک روڈ پر ٹیکس فیس کی وصولی پر پہلے ہی DMC ملیر نے قبضہ کررکھا ہے۔ کئی بکرا منڈی کی آمدنی بھی DMC نے زبردستی اور غیر قانونی طور پر قبضہ کیا ہوا ہے جسے واپس لینے کی مرتضی وہاب میں بھی ہمت نہیں ہے۔ٹرانسپورٹ ڈپارٹمنٹ کے بعض شعبہ جات کو پہلے ہی صوبائی حکومت نے KDA اور صوبائی ٹرانسپورٹ ڈپارٹمنٹ کے سپرد کردیا گیا ہے۔انفارمیشن ٹیکنالوجی، فوڈ ڈپارٹمنٹ، انٹرپرائز اینڈ پروموشن، وٹرنری، اسپورٹس کلچر،اسٹیٹ، سمیت دیگر شعبہ جات کے بعض حصوں کی آمدن پر پہلے ہی صوبائی حکومت قبضہ جما چکی ہے۔ اس سے قبل مراحلہ وار سول ڈیفنس،ایگری کلچر،لائف اسٹاک، واٹر مینجمنٹ، سوئل کنورجین،سوئل Fertility، فشریز، جنگلات،لیبر، سوشل ویلفیئر،اسپورٹس اینڈ کلچر، کوآپریٹیو، بوئز اسکولز، گرلز اسکولز، ٹیکنیکل ایجوکشن، کالجز، اسپورٹس، اسپیشل ایجوکیشن، اکاونٹس، بنیادی دیہی صحت، چائلڈ اینڈ وومن صحت، بہبود آبادی، ہسپتال، ماحولیات، ایگزیکٹیو مجسٹریٹس، لینڈ ریونیو، اسٹیٹ، ایکسائز اینڈ ٹیکسزیشن، پراپرٹی تیکس، موٹر وئیکل ٹیکس ،اربن ہاؤسنگ، پلاننگ، پبلک ہیلتھ انجینئرنگ، لوکل گورنمنٹ، رولر ڈیویلپمنٹ، ڈسٹرکٹ روڈز اینڈ ڈیویلپمنٹ،ٹرانسپورٹ، پولیس ڈیویلپمنٹ، سندھ کچی آبادی،کوآرڈینیشن، ہیومن مینجمنٹ، کمیونیٹی آرگنائزیشن، رجسٹریشن آٖفس، انٹر پرائز اینڈ انوسمنٹ پرموشن، لیگل ایڈوائزر اینڈ ڈرافٹرز، پلاننگ اینڈ ڈیویلپمنٹ، انفارمیشن ٹیکنالوجی پرموشن، ڈیٹا بیس، لٹریسی کمپنیز، کنٹریکٹنگ ایجوکشن، ووکیشنل ایجوکیشن، انرجی کے اختیارات سلب کیئے گئے ہیں۔ کماو پوت کے بی سی اے کو پہلے ہی ایس بی سی اے میں ضم کر دیا گیا ہے۔ صفائی کا محکمہ جو تقسیم سے قبل بھی کے ایم سی کے پاس تھا اسے سولڈ ویسٹ مینجمنٹ میں ضم کر دیا گیا ہے کیونکہ یہ بھی کماو پوت محکمہ ہے۔ فوڈ، ٹریڈ لائیسنز، کمرشیلائزیشن، ماسٹر پلان، اسٹیٹ، مارکیٹس، ٹول ٹیکس، چنگی فیس۔کراچی کا سب سے بڑا مسئلہ اداروں کے اختیارات کی تقسیم کا مسئلہ ہے۔ کراچی جو دنیا کا اپنی نوعیت کا واحد میگا سٹی ہے جہاں ایک شہر میں 17 لینڈ کنٹرول ادارے،21 میونسپل ادارے بیک وقت کام کررہے ہیں۔یہ ساڑھے تین کروڑ سے زائد آبادی کا شہر بن چکا ہے جس کا کوئی ماسٹر پلان نہیں۔ تین ڈیویلپمنٹ اتھارٹیز،6 کنٹونمنٹ بورڈز،کراچی واٹر اینڈ سیوریج بورڈ، سندھ بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی، سندھ سولڈ ویسٹ مینجمنٹ بورڈ،سندھ ماس ٹرانزٹ اتھارٹی،ساتھ ضلعی بلدیات، 25ٹاون میونسپل ،ضلع کونسل کراچی، 247 یونین کونسل بیک وقت کام کررہے ہیں جن کا ایک دوسرے سے مشاورت یا تعاون نہیں ہے۔50سال سے زائد عرصہ کچی آبادی، گوٹھ آباد،بورڈ آف ریوینو کی غیر قانونی زمینوں پر قبضہ جاری ہے،جن میں ماس ٹرانزٹ پروگرام کے تحت گرین لائن، بلولائن، ریڈ لائن، براؤن لائن،یلو لائن منصوبہ پہلے ہی سندھ کی نگرانی میں جاچکا ہے۔اس منصوبے میں وفاق اور صوبہ مشترکہ فنڈزنگ کررہے ہیں۔ اس میں ایشین ترقیاتی بینک، چین کا سرکاری بینک،ورلڈ بینک کی جانب سے ملنے والا قرض شدہ منصوبہ بھی شامل ہے، جو عرصہ دراز سے تاخیر کا سبب بن گیا تھا،تاہم اکانومی فورم کے چیئرمین قمر قریشی کا کہنا ہے کہ تمام منصوبہ کراچی کے عوام کی عکاسی نہیں کرتا ہے۔ سندھ حکومت کے رویے اور بدنیتی کے وجہ سے کراچی سمیت ملک بھر میں یہ زور پکڑ رہا تھا کہ کراچی کے مستقبل کا فیصلہ کیا جائے۔اس کے برعکس سندھ حکومت کراچی کے بلدیاتی اداروں کو اختیارات پر تیار ہے، نہ صوبائی فنانس کمیشن ایوارڈز کے تحت کراچی کو اس کا جائز حصہ دینا چاہتی ہے،البتہ سندھ حکومت دن بدن کراچی پر قبضے کے منصوبے پر عمل درآمد کر رہی ہے جس سے مستقبل میں خوفناک خونریزی کا خدشہ ہے۔اب تو KMCکووہ اختیارات اور وسائل نہیں جو 1947ء،1990ء یا 2001-2010ء اور 2016ء تک تھے