بہاولپور( رپورٹ عدنان قریشی )اسلامیہ یونیورسٹی بہاولپور میں 5500 طالبات کی فحش وڈیوز چیف سیکورٹی آفیسر سے ملی ہیں, اور 7000 سے زیادہ طالبات کی وڈیوز ہیڈ آف ڈیپارٹمنٹ سے ملی ہے, ان طالبات کے ساتھ پروفیسرز, سیکورٹی گارڈز اور اسٹوڈنٹ لڑکوں نے زنا کیا ہے اور طالبات کو باہر جسم فروشی کے لئے بھی استعمال کیا گیا ہے۔ طالبات کو آئس نشہ اور شراب پلائی جاتی رہی اور جنسی ادویات کھلائی جاتی رہی۔ رپورٹ کے مطابق شراب اور زنا کی تصاویر اور وڈیوز طالبات کو موبائل پر بھی بھیجی جاتی تھیں, ہاسٹل میں رہنے والی طالبات کو بیمار ظاہر کرکے ایمبولینس کے ذریعے چیف سیکیورٹی گارڈ اعجاز شاہ کی بتائی ہوئی جگہ پر پہنچایا جاتا, روزانہ گھر سے آنے والی طالبات کلاس کے وقت کلاس میں موجود نہیں ہوتی انکی حاضری لگائی جاتی اور امتحانات میں پاس کیا جاتا ایک رپورٹ میں مزید یہ بات سامنے آئی ہے کہ کیمپس کے اندر اور باہر فحاشی اور شراب کی پارٹیاں کی جاتی تھیں یہ کیسا اسلامی معاشرہ ہے اور کیسی دور جہالت کی روایات کو دوراہا جا رہا ہے اسلامی مملکت کی بیٹوں کے ساتھ اس طرح کا بےہودہ سلوک کرنے والے کوئی غیرمسلم نہیں ہیں ہم کشمیر و فلسطین میں ہونے والی بہن بیٹیوں کی بےحرمتی پر تو آواز اٹھاتے ہیں مگر مملکت خداداد پاکستان میں جو ہورہا ہے اس پر کیوں آواز بلند نہیں کرتے یہ کوئی آج کی بات نہیں یہاں کے میڈیکل کالج ہوں یونیورسٹیاں ہوں ہسپتال ہوں یا پرائیویٹ سیکٹر میں موجود مالیاتی ادارے ہوں ہر جگہ ظلم و وحشت کے ناختم ہونے والے قصے موجود ہیں ریاست اور ریاستی اداروں کے نوٹس میں ایسے بےشمار حقائق موجود ہونے پر بھی ایکشن نہیں لیا جاتا اور حوا کی بیٹیاں اپنا دکھ اپنی اذیتیں اور کرب کسی کو بتانے کی بجائے خودکشی کے پھندے کو اولیت دیکر زندگی کا خاتمہ کر لیتی ہیں پچھلے دنوں ڈیرہ غازی خان کی غازی یونیورسٹی میں بھی جنسی دہشت گردی کے واقعات بمعہ شواہد سامنے آئے مگر اس پر زیادتی کے مرتکب پروفیسرز کے خلاف کیا ہوا کچھ سامنے نہیں آیا اسی طرح ایک پرائیوٹ اکیڈمی میں بھی ہوا تھا مگر بااثر لوگوں کے اثر و رسوخ نے ان اکیڈمی والوں کو بھی کھلا چھوڑ دیا گیا کیا یہ ظلم ستم اور جنسی ہراسگی یونہی ہوتی رہے گی اس پر کوئی اسلامی شرعی عدالت یا سپریم کورٹ آف پاکستان کوئی نوٹس لے گی خدارا اس سانحہ پر سیاست بند کریں ن لیگ، پیپلز پارٹی، پی ٹی آئی، یا دیگر پولیٹکل فورسز کو الزامات دیکر معاملہ کی اصل حقیقت سے روگردانی نہ کریں بلکہ اس پر ہمیں دکھ اور رنج و غم سے دوچار ہوکر اس کے تدارک کیلئے نہ صرف مجرموں کو نشان عبرت بنانے کی فکر کرنا ہوگی بلکہ سال ہا سال سے پیدا ہوئے اس بگاڑ کو قرآن و سنیت کی تعلیمات کی روشنی میں ختم کرنے کی ضرورت ہے وگرنہ یاد رکھیں یہ صورت حال دور جہالت سے بھی بدتر صورت اختیار کر چکی ہے سوشل میڈیا پر بہن، بیٹی، ماں، ساس، خالہ چچی، یا پھوپھی کے ناجائز تعلقات کے پرچار کا آئینہ بڑا واضع ہے کہ ہم نے کس راہ پر چلنا تھا اور کس راہ پر چل پڑے ہیں اگر ہم بےدار نہ ہوئے اور ایسے واقعات سے چشم پوشی اختیار کرتے رہے بہن بیٹی پر ہونے والے ظلم کو یہ سمجھ کر نظر انداز کر دیا کہ کونسا ہماری بہن بیٹی سے ہوا ہے یا وہ تو تھیں ہی ایسی باتیں کرکے آنکھیں بند کر لیں تو یاد رکھو وہ وقت دور نہیں جب یہ آگ گھر گھر میں جلے گی تو اس وقت کوئی بھی کچھ نہ کر پائے ہمیں بہن بیٹی کی عزت و تکریم کے لئے یکجا ہو کر ہر حوا کی بیٹی پر ہونے والی زیادتی پر نکلنا ہوگا احتجاج کرنا ہوگا البتہ اسلامیہ یونیورسٹی کا سانحہ کوئی معمولی سانحہ نہیں اس پر خاموشی اللہ کے عذاب کو دعوت دینے کے مترادف ہوگی۔