اسلام آباد(نمائندہ خصوصی )پاکستان ایکس سروس مین سوسائٹی کے نو منتخب صدر لیفٹیننٹ جنرل(ر) عبدالقیوم نے کہا ہے کہ فوج کے خلاف ایک منصوبے کے تحت مہم جوئی کی پرزور مذمت کرتے ہیں اور ہر فوجی ہر قومی ایمرجنسی میں ایکس سروس مین مرد یا عورت جوان یا عمر رسیدہ پاکستان کی حاضر فوج کو کمک پہنچانے کے لیے تیار ہیں، پاکستان ایکس سروس مین سوسائٹی کے قیام کا مقصد ریتائرڈ فوجیوں کو مشکلات کو حل کرنا ہے، فوجی ایک رینک ایک پینشن کا مطالبہ کرتے ہیں،جنگوں میں زخمی ہو کر اپاہج ہو جانے والوں کا افواج پاکستان کے ادارے خیال رکھنے کی کوشش تو کرتے ہیں لیکن بہت سے ایسے پنشنروں کی حالت قابل رشک نہیں، شہید ہو جانے والوں کی بیواؤں کو ملنے والی پنشن معقول نہیں اور گھر میں مرد کفیل کی عدم موجودگی میں بہت سے معاشی اورسماجی مسائل جنم لیتے ہیں،1965 اور 1971 کی جنگوں میں حصہ لینے والے فوجیوں اور شہداء کی بیواؤں کی پنشن دور حاضر کے فوجیوں سے تقریبا آدھی ہیں ،اپنے دیگر ساتھیوں کے ہمراہ نیشنل پریس کلب اسلام آباد میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے پی ای ایس ایس کے صدر لیفٹیننٹ جنرل(ر) عبدالقیومکا مزید کہنا تھا کہ پاکستان کے قیام کا مقصد صرف زمین کے ایک ٹکڑے پر ایک آزاد ریاست قائم کرنا نہیں تھا بلکہ بانی پاکستان ایک ایسی ریاست کے متمنی تھے جہاں لوگ نہ صرف آزار و خود مختار ہوں بلکہ خوشحال ہوں اور انکی فلاح و بہبود کا پوری طرح خیال رکھا جائے اور انہیں اپنے عقیدے کے مطابق اپنی مذہبی رسومات ادا کرنے میں بھی پوری آزادی حاصل ہو،فلاحی ریاست کے اس تصور کو اس وقت بڑا جھٹکا لگا جب مسئلہ کشمیر اور پاکستان دشمن ہندو ذہنیت کی بدولت ریاست کے وجود کو خطرات لاحق ہونے لگے،جس کے لیے ملک کی سرحدوں کی دفاع کے لیے ایک مضبوط اور سول ارمڈ فورس کی اشد ضرورت محسوس ہونے لگی،اس مقصد کے حصول کے لیے ایک پیشہ ور فوج تیار کی گئی جس میں 18 سے 20 سال کے نوجوانوں کی شمولیت صرف اور صرف رضاکارانہ تھی،وہ ہر صورت میں ملکی دفاع کے لیے اپنی جان کی بازی لگانے کے حلف کے ساتھ آرمی ، نیوی، ایئر فورس اورآرمڈ فورس میں شامل ہوئے،ان مجاہدوں نے اپنی جوانیاں پیشے کی نظر کیں ،جنگیں لڑیں، قیدیں کاٹیں، زخمی اور اپاہج ہوئے اور شہادتوں کے نظرانے پیش کیے، اپنے بچوں کویتیم اور بیویوں کو بیوہ کیا لیکن قوم کی بیٹیوں کے سہاگوں کی پہرہ داری کرتے ہوئے اپنی خون کا نذرانہ پیش کر دیا اور زمینی ہوائی اور بحری سرحدوں کو دشمن کے لیے ناقابل تسخیر بنا دیا ،40 سال کے نوجوان پنشنرز صرف پنشن پر اپنے چھوٹے چھوٹے بچوں کی پرورش اور تعلیم کا بندوبست نہیں کر سکتے اس لیے فوجی ایک رینک ایک پینشن کا مطالبہ کرتے ہیں، بہت سے سابقہ فوجیوں کے زمینی جھگڑےکے مسائل ہیں ان کو مدد کی ضرورت ہے، جوان بے روزگاروں کو نئے ہیں ان کو حکومت کا منظور شدہ ملازمتوں کا 10 فیصد کا کوٹا بھی میسر نہیں، غازیوں اور بزرگ فوجیوں کے لیے کوئی خاص سہولت نہیں ہے،بچوں کی تعلیم اور صحت کی سہولیات ناکافی ہیں، اسی چیز کا احساس کر کے ہوئے 1980 کی دہائی میں ایک ایک سروس مین سوسائٹی کی بنیاد رکھی گئی جو پانچ دسمبر 1991 کو باقاعدہ رجسٹر کروائی گئی یہ سوسائٹی ایک این جی او کا درجہ رکھتی ہے اور یہ کسی سیاسی مقصد کے لیے استعمال نہیں کی جا سکتی بہرحال ممبران کو دی گئی آئینی ازادی جس میں اپنی ذاتی حیثیت میں کسی سیاسی جماعت میں شمولیت یا اپنے ووٹ کا زیادہ نہ استعمال کا حق محفوظ رکھتے ہیں، جنرل(ر) عبدالقیوم نے مزید کہا کہ ہندؤں کی شروع سے ہی پاکستان دشمنی،افغانستان کی اندرونی خلفشاراور اسکی زمین کا پاکستان کیلئےدہشتگردی کیلئے استعمال ، بلوچستان کے باغیوں کی ہندوستانی خفیہ ایجنسی را کی طرف سے پشت پناہی ، دہشتگردوں کی پاکستان کے ہر صوبے اور صوبوں کے ہر کونے بشمول جی ایچ کیو ،پشاورآرمی پبلک سکول کے بچوں اور اسلام آباد میریٹ ہوٹل پر یلغار، ملک کے اندر لسانیت ،صوبائیت اور فرقہ واریت کو ہوا دینے کی سعی جیسے قومی سلامتی پر حملوں کےآگے قوم کی دعاؤں کے ساتھ افواج پاکستان اور سول آرمڈ فورسز کے بہادر سپوت سیسہ پلائی ہوئی دیوار کی طرح کھڑے نہ ہوتے تو پاکستان کی سلامتی خطرے میں پڑ سکتی تھی اس لیے افواج پاکستان کے خلاف کسی بھی قسم کی مذموم مہم کے سامنے ہمارے ساتھ فوجی ایئرمین سیلر اور سول آرمڈ فورسز کے نوجوان ایک آہنی دیوار کی طرح کھڑے ہوں گے ،ہم فوج کے خلاف ایک منصوبے کے تحت مہم جوئی کی پرزور مذمت کرتے ہیں اور ہر فوجی ہر قومی ایمرجنسی میں ایکس سروس مین مرد یا عورت جوان یا عمر رسیدہ پاکستان کی حاضر فوج کو کمک پہنچانے کے لیے تیار ہیں۔