اسلام آباد (کورٹ رپورٹر )سپریم کورٹ آف پاکستان میں فوجی عدالتوں میں آرمی ایکٹ کے تحت عام شہریوں کے ٹرائل کے خلاف دائر درخواستوں پر سماعت کے دوران چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے اٹارنی جنرل کی فل کورٹ تشکیل دینے کی استدعا مسترد کرتے ہوئے ریمارکس دئیے ہیں کہ اس وقت ججز دستیاب نہیں، فل کورٹ تشکیل دینا ناممکن ہے۔ منگل کو چیف جسٹس آف پاکستان عمر عطا بندیال کی سربراہی میں جسٹس اعجاز الاحسن، جسٹس منیب اختر، جسٹس یحییٰ آفریدی، جسٹس سید مظاہر علی اکبر نقوی اور جسٹس عائشہ اے ملک پر مشتمل 6 رکنی لارجر بینچ نے مذکورہ درخواستواں پر سماعت کی۔سماعت کے آغاز پر صدر سپریم کورٹ بار عابد زبیری روسٹرم پر آئے، انہوں نے عدالت سے مخاطب ہوتے ہوئے کہا کہ میں نے ایک متفرق درخواست دائر کی ہے، اس پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ ہم آپ کو خوش آمدید کہتے ہیں۔عابد زبیری نے کہا کہ میں نے تحریری جواب جمع کرا دیا ہے، سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کی نمائندگی کر رہا ہوں، میری 5 معروضات ہیں، چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ آپ بات کر سکتے ہیں، جو بولنا ہے بتائیے، آپ کی رائے آنا اچھا ہوگا۔عابد زبیری نے کہا کہ آرٹیکل 83 اے کے تحت سویلینز کا ٹرائل فوجی عدالتوں میں نہیں ہوسکتا، عدالت کی توجہ سپریم کورٹ کے فیصلوں کی جانب دلانا چاہتا ہوں، 1999 میں سپریم کورٹ میں لیاقت حسین کیس سے اصول طے ہے کہ فوجی عدالتوں میں سویلین کا ٹرائل نہیں ہو سکتا۔انہوں نے کہا کہ جسٹس اجمل میاں کے فیصلے کے مطابق صرف فوجی اہلکاروں کا فوجی عدالتوں میں ٹرائل ہوسکتا ہے، فیصلے میں کہا گیا کہ آرمی ایکٹ کے تحت سویلنز کے ٹرائل کے لیے آئینی ترمیم درکارہوگی۔عابد زبیری نے کہا کہ اکیسویں آئینی ترمیم کے خلاف درخواستوں پر فیصلے میں عدالت نے جوڈیشل ریویو کی بات کی تھی، بنیادی نقطہ یہ ہے کہ جو الزامات ہیں ان سے ملزمان کا تعلق کیسے جوڑا جائے گا، اس معاملے پر عدالتوں کے فیصلے موجود ہیں، عدالتیں کہہ چکی ہیں کہ ملزمان کا براہِ راست تعلق ہو تو ہی فوجی عدالتوں میں ٹرائل ہو سکتا ہے۔دریں اثنا عدالت نے اٹارنی جنرل کی فل کورٹ تشکیل دینے کی استدعا مسترد کردی، چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ اس وقت ججز دستیاب نہیں، فل کورٹ تشکیل دینا ناممکن ہے۔بعد ازاں عدالت نے فوجی عدالتوں کے خلاف درخواستوں پر مزید سماعت (آج) بدھ تک ملتوی کردی۔