کراچی (تحریر/آغاخالد)
مگر دوسری طرف بھی آصف زرداری تھے وہ جونہی کنگری ہائوس پہنچے تو سامنا ہوتے ہی پیر صاحب پاگارہ کے پائوں پڑگئے جس سے بقول راوی کے پیر صاحب کا آدھا غصہ تو وہیں جاتارہا پھر مذاکرات کی میز پر بیٹھتے ہی زرداری صاحب نے پیر جوگوٹھ کی درگاہ کا ذکر چھیڑ دیا اور بولے پچھلے دنوں میرا وہاں سے گذر ہوا تو درگاہ کی خستہ حالت دیکھ کر مینے فیصلہ کیاتھا کہ سندھ کے اس عظیم اثاثے کی مرمت پونی چاہئے یہ کہ کر وہ اٹھے اور ایک بھاری پیکٹ اپنے پی اے سے لے کر پیر صاحب کی خدمت میں پیش کردیا اور پھر اس کے بعد چراغوں میں روشنی نہ رہی، ملاقات میں کوئی بڑا بریک تھرو تو نہ ہوا اور نہ ہی پیر صاحب نے واضع طور پر حکومت کو حمایت کی کوئی یقین دہانی کروائی مگر ان کے نرم رویہ کی وجہ سے آصف زرداری کو بڑا حوصلہ ملا اور اس ملاقات کے اختتام کے ساتھ ہی زرداری صاحب بلاول ہائوس کے فون سے اسلام آباد محترمہ کو کامیابی کی نوید سنارہے تھے، زرداری صاحب روایتوں کی پاسداری کرنا بھی خوب جانتے ہیں وہ جب مشہور زمانہ ملکی تاریخ کی طویل ترین 12 سالہ سیاسی جیل کاٹ کر رہاہوے اور پھر طویل جدوجہد کے بعد ملک کے صدر منتخب ہوے تو انہوں نے کراچی کے اپنے پہلے دورہ میں بلاول ہائوس میں میڈیا سیل سے کہا کہ وہ شہر کے "کورٹ رپورٹر” کے اعزاز میں ضیافت دیناچاہتے ہیں زرداری صاحب کو جیل سے عدالتوں میں لایا جاتا تو جن رپورٹرز سے ان کی ملاقاتیں رہتیں وہ ملک کا سب سے بڑا عہدہ حاصل کرنے کے باوجود انہیں نہ بھولے اس تقریب میں قومیت،مذہب،ادارہ یا سیاسی وابستگی سے قطع نظر شہر کے سب” کورٹ رپورٹرز” کو مدعو کیاگیا تھا ہال کھچا کھچ بھراہواتھااور کھانے سے پہلے کچھ رپورٹرز کی فرمائش پر حصول خبر کے لئے سوال کئے جانے لگے تو زرداری صاحب نے بڑے بے تکلفانہ انداز میں کہاکہ سجنو، ساتھیو آج خبر کی کوئی بات نہیں ہوگی مینے آپ لوگوں کو اس لئے آج بلایاہے کہ آپ لوگ میرے برے وقت کے دوست ہو میں ملکی سیاسی تاریخ کی طویل جیل کاٹ کر سرخ رو ہوا تو اس میں آپ لوگوں کے تعاون کو بڑا دخل تھا اب میں آپ کے کسی کام کے قابل ہوا ہوں تو میں چاہتاہوں کہ اپنے مسائل بتائیں جو میں حل کرسکوں اس موقع پر کراچی کی مثالی صحافت پھر جیت گئی کہ سوائے ایک آدھ کے کسی نے کوئی ذاتی مسلہ بیان نہیں کیا نہ ہی مدد مانگی اس نشست میں اردو میں بات چیت جاری تھی کہ اچانک ایک "سندھی رپورٹر” نے کھڑے ہوکر سندھی میں فریاد کرنا شروع کی کہ سائیں کراچی پریس کلب کو سندھ حکومت ہرسال مالی گرانٹ دیتی ہے جبکہ کراچی پریس کلب میں ہم سندھیوں کو ممبر شپ نہیں دی جارہی پھر اس نے سندھ سندھیوں کاہے کہ حوالے سے لمبی تقریر شروع کردی زرداری صاحب اس کی چالاکی پر اپنے مخصوص انداز میں مسکراتے ہوے اس کی بات کاٹ کر بولے، بابا اگر تمہارے اپنے صحافی بھائی تمہیں قبول نہیں کرہے تو سندھ حکومت یا میں کیا کرسکتے ہیں، اور منہ دوسری طرف پھیر لیا،محترمہ بے نظیر بھٹو کے شوہر اور مستقبل کے بڑے لیڈر بلاول بھٹو کے والد آصف علی زرداری کی خوبیو اور خامیوں کاشمار گر کیا جائے تو بلاشبہ 98 فیصد ان میں خوبیاں ہونگی مگر 2 فیصد خامیاں اتنی بڑی ہیں کہ 25 سال سے ان کی نیکیوں کو "ہڑپ”رہی ہیں، وہ بہترین سیاستداں کی حیثیت سے ہمیشہ یاد رکھے جائیں گے مگر "کامیاب نہیں” وہ بہتریں سیاسی پتے کھیل کر ہرطرف چھاجاتے ہیں مگر ہمیشہ آخری لمحوں میں "قسمت” کے ہاتھوں کامیابی ریت کی طرح ان کی مٹھی سے پھسل جاتی ہے، 2022 میں عمران خان کے اقتدار کی قبر کھودنے اور شہباز کو سب سے بڑے ملکی منصب پر فائز کرکے اپنے بادشاہ گر کے خطاب پرمہر تصدیق ثبت کرڈالی اور موجودہ گیم چینجر کے موجد بھی کہلائے مگر بیٹے کے لئے ہرگزرتے دن کے ساتھ کامیابی ان سے دور ہوتی جارہی ہے 2008 میں ان کی جھولی میں اقتدار ایسے آن گرا کہ 1971 میں بھٹو کی مثال یاد آگئی مگر مکمل اختیارات کے ساتھ ایسا شاندار "تخت پاکستان” ملنے کے باوجود وہ سابق چیف جسٹس افتخار چودھری کے معاملے پر غلطی کربیٹھے اور پھر پورے 5 سال انہیں بھگتنا پڑا افتخار چودھری ان کے لئے ایسی گولی بن گیا جو نہ نگلی نہ ہی اُگلی جاسکتی تھی، 2012 میں جنرل پاشا کے بہکاوے میں آکر ن لیگ کا پنجاب سے صفایا کروانے کی خاطر پی ٹی آئی کے جلسوں کو افرادی قوت فراہم کی اور غیر اعلانیہ اس کی بھرپور مدد کرتے رہے ن لیگ تو اپنی جگہ کھڑی رہی خود زرداری صاحب کے ووٹ بینک پر جھاڑو پھر گیا اور پی ٹی آئی پہاڑ بن کر ان کے سامنے آن کھڑی ہوئی اور اب ایک بار پھر…
کچھ لوگ تفنن کہتے ہیں کہ شاید زرداری صاحب کا پیر کامل نہیں، صحت کے پیچیدہ مسائل میں گھرے زرداری صاحب اقتدار کی بھول بھلیوں میں زندگی کی شاید آخری اور سب سے بڑی اننگ کھیلنے نکلے ہیں وہ اپنے اکلوتے اور اعلی تعلیم یافتہ بیٹے بلاول کو وزیر اعظم کے منصب پر فائز دیکھنا چاہتے ہیں مگر کھیل کے آخری رائونڈ میں ہمیشہ کی طرح کامیابی ان کی مٹھی سے پھسل رہی ہے کیونکہ ہمارے ملک کی طاقت ور اسٹبلشمنٹ اور بین الاقوامی قوتیں شہباز شریف کے سحر میں، گھر چکی ہیں تاہم سیاست کے اس بوڑھے جادو گر کے ہاتھ میں اب بھی کچھ پتے تو ہونگے اور کوئی بعید نہیں کہ آخری پتہ کھیل کر وہ سارا منصوبہ الٹ دے اس نے اپنے ہونہار بیٹے کو اقتدار کی سنگھا سن پر بٹھانے کو شطرنج کی جو چال بچھائی ہے اس میں سندھ کے ساتھ بلوچستان میں اگلی صوبائی حکومتیں پی پی کی ہونگی اس کے لئے زرداری صاحب نے اپنے قابل اعتماد ساتھی علی حسن زہری کو ذمہ داریاں سونپی ہیں جنہیں چیف سردار اور سابق وزیر اعلی سردار ثناءاللہ زہری اور جنرل عبد القادر بلوچ کا تعاون بھی حاصل ہے اور زرداری صاحب نے علی حسن کو اگلے انتخاب میں حب سے صوبائی اسمبلی کا ٹکٹ دینے کا بھی عندیہ دیاہے اور امکان غالب ہے کہ وہ بلوچستان کے اگلے وزیر داخلہ بھی ہونگے ان کی اہلیہ پہلے ہی بلوچستان سے سینیٹر ہیں وہ اس سلسلہ میں کچھ مزید سرداروں اور صوبہ کی بارسوخ شخصیات کو پی پی میں شامل کروانے کے لیے بھرپور کوششیں کرہے ہیں جبکہ سندھ میں علی حسن زرداری کو خصوصی ذمہ داریاں تفویض کی گئی ہیں امکان غالب ہے کہ وہ بھی ٹھٹھ سے اگلا الیکشن لڑیں گے اور اگلی صوبائی کابینہ میں وہ بھی وزارت کے امید وار ہونگے تاہم اس سلسلہ میں سندھ میں سید ناصر حسین شاہ اور شرجیل میمن کو بھی کچھ ذمہ داریاں دی گئی ہیں اس کے علاوہ پنجاب کی سرائکی پٹی میں جیتنے والے بارسوخ امیدواروں پر بھی بڑا کام ہورہاہے اور ایسے امید واروں کو پیشکش کی جارہی ہے کہ اگلے انتخابی معرکہ کے اخراجات پارٹی برداشت کرے گی جس کے لئے بھی علی حسن زہری کو ذمہ داریاں دی جارہی ہیں اس سب کے بعد بھی سیاسی بساط بچھانے اور طاقت کے اس کھیل میں اصل فیصلہ تقدیر کو کرناہے اور وہی حتمی فیصلہ کرے گی کہ 2024 کے اقتدار کا ہما کس کے سرپر بیٹھے گا-