اسلام آباد(نمائندہ خصوصی )ہلاکتوں کی مجموعی تعداد میں نمایاں کمی کےساتھ 2023 کی دوسری سہ ماہی میں پر تشدد واقعات میں تقریباً 21 فیصد کمی دیکھی گئی۔سینٹر فار ریسرچ اینڈ سیکیورٹی اسٹڈیز (سی آر ایس ایس) کے اعداد و شمار کے مطابق پہلی سہ ماہی میں ہلاکتوں کی تعداد 358 تھی جو کم ہو کر اگلی سہ ماہی میں 284 ہوگئی۔2023 کی دوسری ششماہی کے دوران دہشت گردی اور انسداد دہشت گردی کی کارروائیوں کے 176 واقعات میں تقریباً 284 افراد اپنی جانوں سے ہاتھ دھو بیٹھے اور 291 زخمی ہوئے۔حملوں کا سب سے زیادہ شکار سیکیورٹی اہلکار بنے۔دہشتگردی کے حملوں کا بنیادی مرکز خیبرپختونخوا اور بلوچستان تھے، جہاں ملک کی تمام ہلاکتوں کا 80 فیصد اور تمام حملوں کا 88 فیصد (بشمول دہشت گرد حملوں اور سیکیورٹی فورسز کی کارروائیوں) ریکارڈ کیے گئے۔سی آر ایس ایس کے نتائج کے مطابق اسلام آباد، پنجاب اور سندھ میں خیبرپختونخوا اور بلوچستان کے مقابلے میں تشدد کے نسبتاً کم واقعات ہوئے۔بلوچستان واحد صوبہ تھا جہاں تشدد (ہلاکتوں) میں 14 فیصد اضافہ دیکھا گیا، پر تشدد کارروائیوں میں سب سے زیادہ کمی صوبہ سندھ میں دیکھی گئی جو کہ گزشتہ سہ ماہی کے مقابلے میں تقریباً 80 فیصد تھی، اس کے بعد پنجاب میں یہ شرح 55 فیصد اور خیبرپختونخو میں 20 فیصد کمی ہوئی۔دوسری سہ ماہی میں ریکارڈ کی گئی ہلاکتوں میں سے تقریباً 62 فیصد دہشت گردی کے نتیجے میں ہوئیں، جہاں 121 دہشت گرد حملوں میں 165 افراد ہلاک اور 191 عام شہری اور سیکیورٹی اہلکار زخمی ہوئے۔اعداد و شمار کے مطابق اوسطاً ہر دوسرے روز ایک سیکورٹی آپریشن کیا گیاتاہم دہشت گردی کے حملوں کی تعداد اس سے زیادہ رہی اور روزانہ ایک سے زیادہ حملے ہوئے۔دہشت گردی کے ان 121 واقعات کا سب سے بڑا نشانہ سیکیورٹی اہلکار تھے، جن میں 103 جانیں ضائع ہوئیں جبکہ 62 عام شہری جاں بحق ہوئے۔دہشتگردی کا نشانہ بننے والے ان 165 متاثرین کے مقابلے میں سیکیورٹی فورسز کی جانب سے انسداد دہشت گردی کی کارروائیوں میں عسکریت پسندوں، باغیوں اور جرائم پیشہ افراد پر کی صرف 119 ہلاکتیں ہوئیں۔2021 کے بعد سے سیکیورٹی اہلکاروں کی شہادتوں میں مسلسل اضافہ ہو نے لگا ۔رواں کی ابتدائی دو سہ ماہیوں میں ہونے والا 267 جانوں کا ضیاع گزشتہ پورے سال کے دوران ہونے والی 286 اموات کا تقریباً 93 فیصد بنتے ہیں، اگر یہ سلسلہ جاری رہا تو اس سال کے آخر تک سیکیورٹی فورسز کے جانی نقصانات دگنے ہوسکتے ہیں۔