کراچی (تحریر/ آغاخالد)
آصف علی زرداری ملکی سیاست کا جادوگر لوگ اسے دوستوں کادوست یا دوست نواز بھی کہتے ہیں مگر سچ تو یہ ہے کہ اس کی سیاسی سوچ کے 2 مختلف پہلو ہیں دونوں سے پیار اور نفرت کرنے والوں کی ہمارے معاشرہ میں معقول تعداد موجود ہے ان کے انداز سیاست کی ناکامی یہ ہے کہ محترمہ بے نظیر بھٹو سے انہیں ورثہ میں ملک کی سب سے بڑی سیاسی جماعت (پپلز پارٹی) ملی مگر ان کی قیادت میں سکڑکر وہ سندھ صوبے تک محدود رہ گئی وہ بھی صرف دیہی سندھ تک،اور شاید اس کی وجہ یہ ہوکہ وہ عوامی مقبولیت پر منافع کو ترجیح دیتے ہیں اور کارکن کی بجائے وڈیروں، جاگیرداروں، سیدوں اور ان کے علاقہ کی بااثر شخصیات پر سرمایہ کاری کرتے ہیں انہیں کھل کر پیسہ کمانے اور بے ایمانی کرکےان سے ایمانداری سے حصہ داری کا تقاضہ کرتے ہیں اور توقع کے برعکس کوئی بے ایمان ہوجائے تو اسے اپنے سوتیلے بھائی اویس ٹپی، بچپن کے دوست ذوالفقار مرزا کی طرح سیاست کے گمنام کھلاڑی بنادیتے ہیں یہ واقعہ بہت حیران کن ہے کہ ان کی عنایات کی بدولت اویس ٹپی ایک دور میں جب آصف، صدر پاکستان تھے تو وہ سندھ کے متبادل وزیر اعلی کہلاتے تھے بلکہ سچ تو یہ ہے کہ وہ اس وقت کے شریف النفس وزیر اعلی سید قائم علی شاہ سے زیادہ طاقت ور حکمراں سمجھے جاتے تھے پھر فلک نے یہ منظر بھی دیکھا کہ بے ایمانی اور نافرمانی پر کراچی کے بلاول ہائوس میں اویس ٹپی کو مرغا بناکر ملازمین سے چھترول کروائی گئی اور پھر ان کا بوریا بستر گول کردیاگیا،
اسی طرح انہوں نے اپنے بچپن کے دوست ذوالفقار مرزا کو سندھ کا وزیر داخلہ بنایا اور ایسا بے لگام وزیر داخلہ کہ وہ صبح خود عدالت لگاتا اور شام کو مبینہ ملزم کو سزا سنادیتا وہ سمجتا کہ اس سرکاری یانیم سرکاری افسر یا کاروبای شخص کے پاس کروڑوں یا اربوں روپیہ ہے اسے اپنے منتخب چند پولیس افسران کے ٹولہ کے ذریعے اغوا کرواتا اور اسے خفیہ عقوبت خانوں میں رکھ کر بدترین تشدد سے سارا پیسہ نکلواتا، ایسے بدقسمت افسران میں ملیر ڈیولپمنٹ اتھاریٹی کے سابق ڈی جی امیر زادہ کوہاٹی بھی شامل ہیں جن کے ساتھ تو بہت ہی دردناک سلوک کیاگیا انہیں غائب کرکے کئی ماہ ماورائے قانون حراست میں رکھا گیا اور پھر بری طرح نچوڑ کر دبئی کاٹکٹ دلاکر ایرپورٹ چھوڑا گیا اور جب تک ان کا جہاز آسمانوں پر نہ پہنچ گیااس کی نگرانی کی جاتی رہی وہ اس سلوک پر صدمے سے دبئی میں ہی دل کا دورہ پڑنے سے انتقال کرگئے اور وہیں سے ان کی میت کوہاٹ میں ان کے گائوں لے جائی گئی جبکہ مرزاکے دیگر ایسے شکار افراد میں کراچی کی ممتاز کاروباری شخصیت حضور بخش کلوڑ اور کئی دیگر شامل ہیں کراچی میں رہائش پذیر تمام قومیتوں کے افراد کے لئے مرزا کا دور برے خواب کی مانند تھا یہ وہ دور تھا جب آرمی چیف جنرل کیانی اور صدر پاکستاں کے منصب پر فائز آصف علی زرداری کے درمیان سرد جنگ بڑھتے بڑھتے کھلی جنگ میں تبدیل ہوچکی تھی اور ایسے میں ملکی ادارے اپنے سپریم کمانڈر کے گرد گھیرا ڈالنے کو مرزا پر نظر رکھے ہوے تھے مگر دوسری طرف بھی ایک جذباتی مگر شاطر سیاستداں تھا اس نے اپنے آپ کو بچانے کی خاطر اداروں کے نزدیک ان دنوں ناپسندیدہ نمبر1 الطاف حسین کے خلاف اچانک محاذ کھول دیا جو آصف زرداری کے نزدیک ناپسندیدہ عمل تھا مگر مرزا کی یہ مجبوری تھی یوں مرزا ہمارے اداروں کی نفسیات سے خوب کھیل گیا جبکہ اُس وقت کے دو بڑوں کی کشیدہ صورت حال مرزا کے لئے مزید مشکلات کا یوں سبب بن رہی تھی کہ زرداری صاحب کے نزدیک مرزا کے اس عمل پر شکوک و شبہات بڑھ رہے تھے اور اقتدار کی راہ داریوں میں اہلیت سے عاری گھس بیٹھیے ویسے ہی ایسے مواقع کی تاک میں ہوتے ہیں وہ دونوں طرف منافقت کے تیر چلاکر برسوں کے یارانے کو لمحوں میں تاراج کردیتے ہیں شنید ہے کہ وزیر داخلہ کے چنیدہ پولیس افسران میں سے کسی نے زرداری صاحب کے دورہ کراچی میں انہیں مرزا کی حاصل کردہ دولت اور بے ایمانی کے کچھ ثبوت دکھاکر تفصیلات سے آگاہ کیا تو زرداری صاحب جلال میں آگئے اور یوں مرزا کے گرد گھیرا تنگ ہونے لگا اور وہی حالات مرزا کو پیش آنے لگے جو وہ وزارت داخلہ کی طاقت ور کرسی پر بیٹھ کر دوسروں کے لئے پیدا کرتاتھا اپنے اپ کو ٹیپو سلطان سمجھنے والا زرداری صاحب کے جھٹکے برداشت نہ کرسکا اور چھلانگ مارکر اسٹبلشمنٹ کی گود میں جابیٹھااور پھر برسوں کی یاری تڑک کرکے ٹوٹ گئی دراصل آصف زرداری کے قریبی رفقاکے بقول وہ گینگ ماسٹر کی طرح سیاسی ساتھیوں سے برتائو کرتے ہیں تاہم یہ ان کا ناقابل فراموش کارنامہ ہے کہ محترمہ بے نظیر کی شہادت کے دلخراش واقعہ کے بعد ان کے سوئم کے لاکھوں کے مجمع سے اپنے تاریخی خطاب میں "پاکستان نہ کھپے” کے نعروں کی گونج میں بڑے مجمع سے خطاب میں "پاکستان کھپے” کانعرہ لگاکر انہوں نے سب کو حیران کردیاتھا چونکہ اس کشیدگی کی انتہاء پر پہنچے ہوے ماحول میں کسی کو ان سے اس جرئت مندانہ نعرہ کی توقع نہ تھی، سیاست میں اکثر اس طرح کے حیرت زدہ کردینے والے فیصلے ان کی منفرد شناخت ہیں یہ بھی حقیقت ہے کہ وہ 2000 سے اگلی 3 دہائیوں تک ملکی سیاست کے سب سے کامیاب کھلاڑی سمجھے جاتے رہے ہیں انہیں سمجھنے کے لئے مشکلات میں گھری پارٹی کوبھنور سے نکالتے وقت برتی گئی ان کی چالوں کو سمجھنا ضروری ہے تو آئیے ان کی ایسی مخفی صلاحیتوں کاجائزہ لیتے ہیں، یہ پیر صاحب پاگارہ کے ایک قریبی ساتھی بیان کرتے ہی بڑے پیر صاحب پاگارہ آصف زرداری سے سخت ناراض تھے ان دنوں اسٹبلشمنٹ بھی محترمہ بے نظیر سے خفا تھی اور محترمہ کی حکومت معطل کرنے کی خاطر خفیہ تیاریاں جاری تھیں، اس کے لیے نواز شریف کے کاندھے استعمال ہورہے تھے ادھر پیر صاحب نواز شریف کے بھی خلاف تھے نواز شریف کے خلاف پیر صاحب کا تعاون حاصل کرنے اور اسٹبلشمنٹ کو بھی پیر صاحب کے ذریعے رام کرنے کے لئے محترمہ نے آصف زرداری کو ذمہ داری سونپی یہ 90 کی دہائی کاذکرہے زرداری محترمہ بے نظیر کی وزارت عظمی میں وفاقی وزیر ماحولیات تھے اور انہوں نے موسمیاتی تبدیلی سے نپٹنے کے حوالے سے کراچی میں بڑی شجرکاری مہم کا اعلان کیاتھا اور اس رقم کا بڑا حصہ شاہراہ فیصل پر خرچ ہونا تھا، اس کے لئے وہ محترمہ بے نظیر سے بھاری رقم منظور کروانے میں کامیاب ہوگئے تھے ہمیشہ کی طرح اس وقت کی ناراض اسٹبلشمنٹ ان کے خلاف ایسے فیصلوں کو لے کر بڑے اسکینڈلز گھڑ رہی تھی اور ان پر "مسٹر 10 پرسنٹ” کی حیثیت سے بدنامی کاٹھپہ لگایا جاچکا تھا جبکہ پیر صاحب پاگارہ بھی اس پروپگندہ سے متاثر ہوچکے تھے اس لئے وہ شدید غصہ میں تھے تو جب زرداری صاحب کی جانب سے ملاقات کا وقت مانگا گیا تو پیر صاحب نے اس تیاری کے ساتھ ان کی درخواست قبول کی کہ ان کی کرپشن پر کلاس لیں گے…
بقیہ کل