اسلام آباد (نمائندہ خصوصی ) قوم کی بیٹی ڈاکٹر عافیہ کی رہائی اور وطن واپسی کیلئے جاری جدوجہد کے سلسلے میں ڈاکٹر فوزیہ صدیقی نے گزشتہ روز وفاقی وزیر داخلہ رانا ثناءاللہ خان سے ایک مرتبہ پھر ملاقات کی۔ حکومت اور ریاستی حکام سے بار بار ملاقات کا مقصد انہیں قوم کی بیٹی ڈاکٹر عافیہ کی رہائی کے فریضہ کی ادائیگی کی یاددہانی کرانا ہے۔ واضح رہے کہ وزارت خارجہ (MoFA) ایک بار پھر جمعرات کو اسلام آباد ہائی کورٹ کے سامنے مطلوبہ ریکارڈ پیش کرنے میں ناکام رہی ہے۔تفصیلات کے مطابق اسلام آباد ہائیکورٹ کے جسٹس سردار اعجاز خان پر مشتمل بینچ نے ڈاکٹر فوزیہ صدیقی کی جانب سے ڈاکٹر عافیہ کی رہائی کیلئے دائر آئینی پٹیشن 3139/2015 کی سماعت کی۔ڈاکٹر فوزیہ سینیٹر مشتاق احمد خان، پاسبان ڈیموکریٹک پارٹی کے چیئرمین الطاف شکور اور اپنے وکیل عمران شفیق کے ہمراہ عدالت میں پیش ہوئیں۔گزشتہ سماعت کے دوران عدالت نے وزارت خارجہ کو احکامات جاری کئے تھے کہ وہ ڈاکٹر عافیہ صدیقی سے کونسل جنرل کی ملاقاتوں اور ملاقاتوں کے بارے میں مطلوبہ دستاویزات فراہم کرے اور ساتھ ہی درخواست گزار کے ساتھ حکومت کی جانب سے عدم انکشاف کے معاہدے پر دستخط بھی کرے۔ تاہم، آج بھی وزارت خارجہ کے حکام نے یہ کہتے ہوئے مطلوبہ کاغذات جمع نہیں کرائے کہ وہ ابھی تک پروسیس میں ہیں۔ تاہم قائم مقام سیکرٹری خارجہ اور ایڈیشنل سیکرٹری قانون عدالت میں پیش ہوئے اور یقین دہانی کرائی کہ وہ دس دن میں مطلوبہ دستاویزات درخواست گزار کو فراہم کر دیں گے۔ایڈووکیٹ عمران شفیق نے کہا کہ 4 اگست کو ڈاکٹر فوزیہ صدیقی اپنی بہن عافیہ سے ملنے امریکا جائیں گی اور ان کے دورے سے قبل ریکارڈ کی فراہمی بہت ضروری ہے۔ انہوں نے کہا کہ ڈاکٹر عافیہ صدیقی بدترین جیل میں قید ہیں اور پہلا قدم یہ ہونا چاہیے کہ انہیں کسی اور عام جیل میں منتقل کیا جائے جہاں قیدیوں کے انسانی حقوق کا احترام کیا جاتا ہو۔ انہوں نے امید ظاہر کی کہ وزارت خارجہ اپنا وعدہ پورا کرے گی اور دس روز میں ملاقاتوں اور دوروں کا ریکارڈ فراہم کردے گی۔اس موقع پر میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے سینیٹر مشتاق احمد خان نے کہا کہ جو حکومت ملاقاتوں کا ریکارڈ فراہم نہیں کر رہی ہے وہ ڈاکٹر عافیہ کو کیا رہا کرائے گی۔ انہوں نے کہا کہ ریمنڈڈیو س کو چند دنوں میں رہا کردیا گیا تھا۔ 20 سال سے جاری جنگ کے خاتمہ کیلئے چند دنوں میں معاہدہ کرا دیا گیا تھا۔ یہ کارنامے حکومت پاکستان تھے تو ڈاکٹر عافیہ کو رہا کرانا کیا مشکل ہے؟ ڈاکٹر فوزیہ صدیقی نے کہا کہ اگر قونصل خانے کا عملہ کسی قیدی سے ملتا ہے تو یہ ان کے فرائض میں شامل ہے کہ وہ اس ملاقات کے نوٹس (Notes) اس قیدی کے اہل خانہ کو فراہم کریں۔یہ تفصیلات فراہم نہ کرنا جرم اور بین الاقوامی قوانین کی خلاف ورزی ہے۔ انہوں نے افسوس کا اظہار کیا کہ امریکہ میں پاکستانی قونصل جنرل نے ڈاکٹر عافیہ کی والدہ اور بہن کو ان ملاقاتوں کا کوئی ریکارڈ یا نوٹس (Notes) فراہم نہیں کیاہے جو کہ ایک جرم ہے۔ انہوں نے حکومت سے مطالبہ کیا کہ قانون کے مطابق ایسا تمام ریکارڈ فراہم کیا جائے۔پاسبان ڈیموکریٹک پارٹی کے چیئرمین نے سوال کیا کہ کیا وزارت خارجہ کے حکام نہیں چاہتے ہیں کہ ڈاکٹر عافیہ امریکی جیل سے رہا ہو کر وطن واپس آئے؟ انہوں نے کہا کہ ڈاکٹر عافیہ کے ساتھ انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیوں کی شہادتیں موصول ہو چکی ہیں۔ ایسی صورتحال میں حکومت ڈاکٹر عافیہ کی رہائی کیلئے فوری اقدامات کرے۔