ٹنڈوجام(نمائندہ خصوصی ) سندھ زرعی یونیورسٹی، محکمہ زراعت، نیوکلیئر انسٹی ٹیوٹ آف ایگریکلچر، مثالی آبادگاروں اور نجی شعبہ کی جانب سے سندھ میں تصدیق شدہ بیج کی کمی اور دیگر مسائل سے نمٹنے کے لیے سندھ ایگریکلچر بورڈ تشکیل دینے پراتفاق کیا ہے۔
شرکاء نے پنجاب سمیت دوسرے علاقوں سے آنے والے غیر تصدیق شدہ بیجوں کو سندھ کی زراعت کیلئے نقصانکار قرار دیتے ہوئے، سندھ سیڈ کارپوریشن کو فعال کرنے کیلئے تجویز پیش کی۔ تفصیلات کے مطابق سندھ زرعی یونیورسٹی کے سیڈ پروڈکشن اینڈ ڈولپمنٹ سینٹر(ایس پی ڈی سی) کی جانب سے گندم کے مختلف ورائٹیز کے بیج کی تیاری اور توسیع کے حوالے سے ایک آگھی سیمینار یونیورسٹی کے سینیٹ ہال میں منعقد کیا گیا، جس سے خطاب کرتے ہوئے سندھ زرعی یونیورسٹی کے وائس چانسلر ڈاکٹر فتح مری نے کہا کہ تصدیق شدہ بیج کی کمی سندھ سمیت ملک بھر کے کسانوں کیلئے ایک بڑا مسئلہ ہے، جس کی وجہ سے زرعی ترقی کا خواب تاحال تعطل کا شکار ہے۔ انہوں نے کہا کہ ملک کی معاشی ترقی، فوڈ سیکیورٹی، ڈیری سمیت زرعی صنعت کی ترقی اور بائے پراڈکٹس کی ایکسپورٹ اسی وقت ممکن ہوسکے گی، جب ہم زرعی فصلوں، پھلوں، سبزیوں کے تصدیق شدہ بیج پر تحقیق اور جانوروں کی اعلیٰ نسلوں کو محفوظ کر سکیں گے۔
اس ضمن میں ہم سندھ حکومت کے تعاون سے بیج کی ترقی کا تحقیقی مرکز قائم کر رہے ہیں، جبکہ سندھ زرعی یونیورسٹی کے ماہرین، زرعی ادارے، مختلف کاشتکار تنظیمیں، نجی شعبہ بیج کو بہتر بنانے کے لیے مل کر کام کر رہے ہیں۔ صوبائی سیکرٹری زراعت قاضی اعجاز مہیسر نے کہا کہ زراعت پر زیادہ توجہ دینے کی ضرورت ہے، پوری زراعت کی بنیاد خالص بیج پر منحصر ہے۔ انہوں نے کہا کہ میں سمجھ نہیں سکا کہ سندھ سیڈ کارپوریشن مطلوبہ نتائج کیوں نہیں دے سکی۔ انہوں نے کہا کہ ہم اس مقام پر پہنچ چکے ہیں کہ اگر ہم نے معاملات پر سنجیدگی اختیار نہ کی تو اس کے بعد تباہی شروع ہوجائے گی، لھٰذا بہتری کے لیے مشترکہ تحقیقی کام کی شروعات کی جائے گی، اور مسائل سے نمٹنے کیلئے تمام اسٹیک ھولڈرس پر مبنی سندھ ایگریکلچر بورڈ تشکیل دیا جائے گا۔ ایگریکلچر ریسرچ سندھ کے ڈائریکٹر جنرل نور محمد بلوچ نے کہا کہ ہم سندھ زرعی یونیورسٹی کے ساتھ مختلف منصوبوں پر کام کر رہے ہیں، بیجوں کے لیے مکمل تکنیکی مدد فراہم کی جائے گی۔ سندھ آبادگار بورڈ کے سینئر نائب صدر محمود نواز شاہ کا کہنا تھا کہ سبزیوں کے 90 فیصد اقسام کے بیج امپورٹ کئے جاتے ہیں، اور دوسرے فصلوں کے بھی زیادہ تر بیج دوسرے صوبوں اور بیرون ملک سے آتے ہیں۔ جس کے نتائج بھتر نہیں ہوتے اور سندھ میں بیج کے معائنہ اور نگرانی کی روایت کی ضرورت ہے، مثالی کاشتکار سید ندیم شاہ نے کہا کہ چونکہ پاکستان کا دالوں کی مد میں درآمدی بل بڑھا رہا ہے اس لیے سندھ میں دالوں کے بیج پر تحقیق ہونی چاہیے جبکہ پنجاب سے آنے والے بیج کی تصدیق کی ضرورت ہے۔
اس موقع پر سیڈ پراڈکشن اینڈ ڈولپمنٹ سینٹر کے ڈائریکٹر ڈاکٹر ظہور سومرو نے ماہرین اور کاشتکاروں کو سندھ زرعی یونیورسٹی کے بیج کے توسیعی کام کے بارے میں آگاہ کیا۔ سیمینار سے ڈاکٹر مجاہد حسین لغاری، ڈاکٹر محمد اسماعیل کمبھر اور دیگر نے بھی خطاب کیا۔ اجلاس میں نامور زرعی سائنسدان کرم خان کلیری، پرو وائیس چانسلر ڈاکٹر جان محمد مری، ڈین ڈاکٹر قمر الدین چاچڑ، ڈاکٹر لیاقت بھٹو، طارق خانزادہ، ڈاکٹر مولا بخش کمبھر، ڈائریکٹر فارمز ممتاز احمد جکھرو، ڈاکٹر شاہنواز مری، ولی محمد بلوچ، ایم ایچ پنہور فارمز کے شریک چیئرمین غلام سرور پنہور، منظور کھوڑو، مصطفی ناگراج، مختلف آبادگار تنظیموں کے رہنماؤں اور خانگی سیکٹر کے نمائندوں کی بڑی تعداد موجود تھی۔ بعد ازاں مہمانوں نے سندھ زرعی یونیورسٹی کے سیڈ پراڈکشن اینڈ ڈولپمنٹ سینٹر کی جانب سے گندم اور رائی کے بیج کی توسیعی فیلڈ کا دورہ کیا، جبکہ سیکریٹری زراعت اور دیگرماہرین نے یونیورسٹی کی ڈزیز فری آم کی نرسری کا جائزہ لیا، دوسری جانب وائیس چانسلر ڈاکٹر فتح مری نے ایس پی ڈی سی کے سالانہ اجلاس کی صدارت کی اجلاس میں محکمہ زراعت، نیوکلیئر انسٹی ٹیوٹ آف ایگریکلچر۔ مختلف آبادگار تنظیموں اور مختلف سیڈ کمپنیوں کے نمائندوں نے بھی شرکت کی۔