اسلام آباد/ لاہور ( نمائندہ خصوصی )حکومت پاکستان اور پاک فوج نے لینڈ انفارمیشن اینڈ مینجمنٹ سسٹم کے ذریعے جدید زراعت کے فروغ کا بے مثال منصوبہ تیار کر لیا جو پاکستان میں زراعت کے شعبے میں انقلاب کا باعث بنے گا،لینڈ انفارمیشن مینجمنٹ سسٹم پاکستان کی تاریخ میں زرعی شعبے کی ترقی کا پہلا جامع حکومتی اقدام ہے جس کا بنیادی مقصد ملکی زرعی درآمدات میں کمی، برآمدات میں اضافہ اور بڑھتی آبادی کی غذائی اجناس کی ضروریات کو پورا کرنا ہے اور اس سے پاکستان کی فوڈ سکیورٹی بڑھانے میں بھی مددگار ثابت ہوگا، منصوبے سے کسانوں کو موسمی تبدیلیوں، فصلوں کی سیٹلائٹ سے ہمہ وقت نگرانی، پانی، کھاد اور اسپرے کے متوجہ علاقوں کے بارے میں معلومات بیک وقت دستیاب ہوں گی،منصوبے سے کسانوں کو منڈیوں تک براہ راست رسائی بھی حاصل ہو گی جبکہ مختلف وسائل و ذخائر، جدید ٹیکنالوجی اور آبپاشی نظام کے مناسب استعمال سے زراعت میں ایسی ترقی لائی جائے گی جس سے ملک کے ہر خطے میں خوراک کی کمی کو پورا کیا جائے گا،پروگرام کے باعث ملک میں عوام کے لیے روزگار کے وسائل بھی پیدا ہوں گے۔ سعودی عرب، چائنہ، متحدہ عرب امارت، قطر اور بحرین کے ساتھ بہت سے منصوبوں میں شراکت داری کی جارہی ہے جس سے پاکستان کی برآمدات میں یقینی اضافہ ہوگا۔میڈیا رپورٹ کے مطابق پاک فوج کے ڈائریکٹر جنرل اسٹریٹیجک پراجیکٹس کی زیر نگرانی ایل آئی ایم ایس سینٹر آف ایکسیلنس کا قیام عمل میں لایا گیا ہے ، منصوبے کے تحت ملک بھر میں 2 ٹریلین روپے کی معاشی سرگرمیاں ہوں گی ، زراعت کے شعبے میں 3 ارب ڈالرز تک غیر ملکی سرمایہ کاری آئے گی جبکہ مقامی سرمایہ کاری اسکے علاوہ ہو گی۔سعودی عرب کی جانب سے ابتدائی طور پر اس منصوبے میں 500 ملین ڈالرز کی سرمایہ کاری آ رہی ہے، ملک بھر میں 44 لاکھ ایکڑ زمین کی نشاندہی کر لی گئی ہے جبکہ پنجاب میں 8 لاکھ 24 ہزار 728 ایکڑ اراضی کو ڈیجیٹائز کر دیا گیا ہے جس پر جدید کاشتکاری کی جائے گی۔ملکی اور غیر ملکی سرمایہ کار کو بنجر زمین آباد کرنے کیلئے شرائط پر لیز پر دی جائے گی جس میں تین سال کا گریس پیریڈ دیا جائے گا ، یہ سرمایہ کاری سپیشل انوسٹمنٹ فیسیلی ٹیشن کونسل کے ذریعے لائی جائے گی۔جدید زراعت کیلئے ملک بھر میں جس 44 لاکھ ایکڑ اراضی کی نشاندہی کی گئی ہے اس میں 13 لاکھ ایکڑ پنجاب، 13 لاکھ ایکڑ سندھ ، 11 لاکھ ایکڑ خیبر پختونخواہ جبکہ 7 لاکھ ایکڑ زمین بلوچستان میں موجود ہے ۔منصوبے کے تحت 95 فیصد چھوٹے کسان کو ٹارگٹ کرکے فائدہ پہنچایا جائے گا جس کے کم رقبے میں زیادہ پیدوار کیلئے اسے سہولیات اور معلومات فراہم کی جائیں گی ، اب تک ملک بھر کے 40 لاکھ کسانوں کا ڈیٹا اکٹھا کیا جا چکا ہے جس میں انکے رابطہ نمبرز بھی شامل ہیں۔ابتدائی طور پر پنجاب کے محکمہ زراعت کے 3700 ملازمین آن بورڈ آچکے ہیں جبکہ دیگر صوبوں کے محکمہ زراعت کے ملازمین کے بھی اس کا حصہ بنایا جائے گا، اس انقلابی اقدام کے تحت زمین، فصلوں ، موسم ، پانی کے ذخائر، کیڑوں کی روک تھام پر ایک ہی چھت تلے کام کیا جائے گا، ملک بھر میں 2000 سے زائد لارج سکیل فارمز قائم کئے جائیں گے ۔اس حوالے سے مختلف شعبوں کے ماہرین جن میں چار ممالک کے کنسلٹنٹس بھی شامل ہیں، ان کے تعاون ، جدید ٹیکنالوجی اور آبپاشی نظام کے مناسب استعمال سے ایسی ترقی لائی جائے گی جس سے نہ صرف خوراک کی کمی پوری ہو گی بلکہ ملک میں خوراک کے بڑے ذخائر رکھنے میں بھی مدد ملے گی ۔پاکستان جو کہ سالانہ 10 ارب ڈالرز کی زرعی درآمدات کرتا ہے ، ان درآمدات کے متبادل کے طور پر ملکی زر مبادلہ کے ذخائر کو بڑی سپورٹ ملے گی ۔پاکستان میں فوڈ سکیورٹی کی یہ صورتحال ہے کہ گندم کی مانگ 30.8 ملین ٹن سے تجاوز کر چکی ہے جبکہ حالیہ پیداوار 26.4 ملین ٹن سے بھی کم ہے ، ورلڈ فوڈ پروگرام کے مطابق 36.9 فیصد پاکستانی خوراک کی کمی کا شکار ہیں جبکہ 18.3 فیصد پاکستانی عوام کو خوراک کی کمی میں ہنگامی صورتحال کا سامنا ہے ۔دوسری جانب پاکستان میں کپاس کی پیداوار بھی گزشتہ 10 برس میں 40 فیصد تک گر چکی ہے۔