اسلام آباد (نمائندہ خصوصی )وزیر اعظم شہباز شریف نے ایک بار پھر سویڈن میں قرآن پاک کی بے حرمتی اور اس کے نسخے نذرآتش کرنے کی سخت الفاظ میں مذمت کرتے ہوئے کہا ہے کہ اسلاموفوبیا اور اسلام کے خلاف جان بوجھ آگ بھڑکائی جانے والی یہ آگ دراصل دنیا بھر میں مسلمانوں اور عیسائیوں کو لڑانے کی سازش ہے،تحمل و برداشت کا یہ مقصد نہیں کہ ہمیں جواب دینا نہیں آتا،واقعہ سویڈن حکومت نے کیوں ہونے دیا، یہ وہ سوالیہ نشان ہے جس کےلئے سوئیڈن کی حکومت کو ہر صورت اپنی پوزیشن کلیئر کرنی ہو گی اور جواب دنیا ہو گا،، آئندہ کسی نے یہ مذموم حرکت کی تو کوئی ہم سے گلہ نہ کرے،ہم تمام دنیا کے اسلامی ممالک کے ساتھ مل کر ایک آواز اٹھائیں اوربتائیں کہ اسلام کے نام لینے والے اربوں لوگ اب یہ بدترین حرکت برداشت نہیں کریں گے، (آج) نماز جمعہ کے بعد پورے ملک میں تمام سیاسی اور مذہبی جماعتیں یکجہتی کا اظہار کریں، تمام مکتبہ فکر کے لوگ مل کر بھرپور احتجاج کریں ۔جمعرات کو پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے وزیر اعظم نے کہا کہ ہم پر فرض ہے کہ سویڈن میں قرآن پاک کی بے حرمتی کے خلاف پوری ملت اسلامیہ اور پاکستان کے عوام کے جذبات ہم پوری دنیا میں ایک زبان کے ساتھ پہنچائیں، اس قبیح حرکت کی بھرپور قوت سے ناصرف مذمت کریں بلکہ ایسے اقدامات کے خلاف ایوان سے موثر ترین الفاظ میں قرارداد کی منظوری ہو۔انہوں نے اسپیکر سے درخواست کی کہ ایک کمیٹی بنائیں جو آئندہ ایسی مذموم حرکتوں کے خاتمے کےلئے سفارشات دے جو ہم ناصرف پاکستان کے متعلقہ اداروں بلکہ دنیا کے فورمز کو یہ سفارشات پہنچائیں، تاکہ کبھی دوبارہ قیامت تک ایسا واقعہ رونما نہ ہو۔انہوںنے کہاکہ قرآن کریم اللہ تعالیٰ کی آخری کتاب ہے اور اس کا نزول اللہ تعالیٰ کے آخری نبی محمدپر ہوا اور قرآن کریم کی حکمت وہ پوری دنیا کو محبت، ایثار، صبر اور تحمل کی تلقین کرتی ہے، قرآن کریم میں حضرت مسیح اور حضرت مریم سمیت بہت سے انبیا کا تفصیل سے ذکر آیا ہے اور ہم بطور مسلمان ناصرف ان کو نبی مانتے ہیں بلکہ ان کا احترام کرتے ہیں، ان کی کتابوں اور مذاہب کا احترام کرتے ہیں۔شہباز شریف نے کہا کہ مجھے یاد نہیں پڑتا کہ کبھی کسی نے یہاں بائبل کی بے حرمتی کی ہو، بائبل کو جلایا گیا ہو، ہم ان تمام مذاہب کا احترام کرتے ہیں تاکہ ہمارے مذہب اور ہماری کتاب، ہمارے نبی اکرم پر کوئی انگلی نہ اٹھا سکے لیکن اس کے باوجود یہ اسلاموفوبیا اور اسلام کے خلاف جان بوجھ کر جو آگ بھڑکائی جا رہی ہے، یہ دنیا بھر میں مسلمانوں اور عیسائیوں کو لڑانے کی سازش ہے اور اس کی جتنی بھی مذمت کی جائے کم ہے۔انہوں نے کہا کہ آج دنیا کے تمام مسلمانوں کے دل اس حرکت پر زخموں سے چور چور ہیں، عید کے روز سوئیڈن کی پولیس نے اس خبیث کو قرآن پاک کی بے حرمتی کی اجازت دی، میں سمجھتا ہوں کہ کبھی کسی نے سوچا تک نہیں تھا کہ اس معاشرے میں پولیس اپنی سیکیورٹی ایک خبیث شخص کو یہ مذموم حرکت کرنے کی اجازت دے، یہ ایوان سوئیڈش پولیس کی اس حرکت کی بھرپور مذمت کرے اور پوری دنیا کو بتائے کہ یہ ناقابل برداشت ہے۔انہوںنے کہاکہ یہ مسلمانوں کے ایمان کا حصہ ہے کہ وہ اپنی تمام متاع، جانیں قرآن کریم اور نبی اکرم کی حرمت پر قربان کردیتے ہیں، وہ کسی بھی چیز کی پرواہ نہیں کرتے، تو اگر آج یہاں احتجاجی ریلیاں ہو رہی ہیں اور تحمل و برداشت کا مظاہرہ کیا جا رہا ہے تو اس کا قطعاً مقصد یہ نہیں ہے کہ ہم کمزور ہیں یا ہمیں اس کا جواب دینا نہیں آتا۔وزیر اعظم نے کہا کہ میں اپنے تمام بھائیوں اور بہنوں سے گزارش کروں گا کہ (آج) جمعہ کے دن نماز کے بعد پورے ملک میں تمام سیاسی اور مذہبی جماعتیں یکجہتی کا اظہار کریں، تمام مکتبہ فکر کے لوگ مل کر بھرپور احتجاج کریں اور پاکستان کے طول و عرض میں ریلیاں نکالیں تاکہ پوری دنیا دیکھے کہ یہ ناقابل برداشت اور مذموم حرکت آئندہ کسی نے کی، تو پھر ہم سے کوئی گلہ نہ کرے۔انہوں نے کہا کہ یہ بدبخت اللہ تعالیٰ کے اس پاک کلام کو جلا کر عیسائی اور اسلامی دنیا میں تقسیم پیدا کرنا چاہتے ہیں، ہمیں اس خبیث شخص کی خباثت کو عبرت کی مثال بنانا چاہیے اور اس کے لیے ہم تمام سیاسی اور قانونی چارہ جوئی کریں گے جس کے لیے سب سے بہترین فورم اسلامی تعاون تنظیم(او آئی سی) ہے، میں اجلاس بلانے پر او آئی سی کا شکر گزار ہوں اور اس میں ناصرف مذمتی قرارداد منظور کی بلکہ اس سلسلے میں اقدامات اٹھانے کے لیے تجاویز کا ذکر ہوا۔انہوںنے کہاکہ میں سعودی عرب اور پوری اسلامی دنیا کا شکر گزار ہوں اور میں سمجھتا ہوں کہ ہمیں اس کے خلاف بھرپور آواز بلند کرنا ہو گی اور دنیا کے ہر کونے میں جا کر بلند آواز کے ساتھ اس کی ناصرف مذمت کرنی ہے اور بتانا ہے کہ اگر آئندہ کسی نے ایسی حرکت کی تو پھر کوئی ہم سے گلہ نہ کرے۔شہباز شریف نے کہا کہ مجھے بتایا گیا کہ سوئیڈن کی حکومت نے اس واقعے کی مذمت کی ہے تاہم میں پوچھتا ہوں کہ ایسا واقعہ انہوں نے کیوں ہونے دیا، یہ وہ سوالیہ نشان ہے جس کے لیے سوئیڈن کی حکومت کو ہر صورت اپنی پوزیشن کلیئر کرنی ہو گی اور جواب دنیا ہو گا۔انہوںنے کہاکہ ہم آزادی اظہار کے خلاف نہیں ہیں، یہ سب کا حق ہے تاہم کیا کسی کو حق ہے کہ اس کی آڑ میں وہ کسی کے مذہب کے خلاف بات کرے، مسلمانوں کے خلاف پرچار کرے، دنیا میں کوئی قانون اس کی اجازت نہیں دیتا، میری آپ سے گزارش ہے کہ آج یہ ایوان سخت ترین الفاظ میں اس واقعے کی مذمت کرتے ہوئے تجاویز پیش کرے کہ کس طرح آئندہ کے لیے ہمیں اقوام متحدہ میں اپنی بھرپور آواز بلند کرنی چاہیے۔انہوں نے کہاکہ ہم تمام دنیا کے اسلامی ممالک کے ساتھ مل کر ایک آواز اٹھائیں اور انہیں بتائیں کہ اسلام کے نام لینے والے اربوں لوگ اب یہ بدترین حرکت برداشت نہیں کریں گے، یہ ہماری برداشت سے باہر ہے، سوئیڈن میں ایسا پہلی مرتبہ نہیں ہوا بلکہ چند ماہ پہلے بھی ایسا ہوا تھا۔وزیر اعظم نے کہا کہ میں سمجھتا ہوں کہ آج یہ ایوان پورا حق رکھتا ہے کہ شدید ترین الفاظ میں یہاں تقاریر کی جائے اور اس کی مذمت کی جائے اور مسلمانوں کے خلاف جان بوجھ کر جو یہ اشتعال انگیزی پیدا کی گئی ہے اس کے خاتمے کے لیے ہم یہاں بھرپور اپنی آواز اٹھائیں۔شہباز شریف نے کہا کہ میں اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل سے رابطہ کرنے کی کوشش کررہا ہوں اور ان سے گزارش کروں گا کہ اس واقعے کے حوالے سے فی الفور اقوام متحدہ کا اجلاس بلائیں اور اس میں تمام اسلامی ممالک کے سربراہان یا ان کے نمائندوں کو بلائیں تاکہ وہ اپنی سربراہی میں ناصرف ایک مذمتی قرارداد پاس کرائیں بلکہ آئندہ کے لیے ایسی حکومتوں اور لوگوں کو تنبیہ بھی کریں جو آج یہ آگ بھڑکانے میں کلیدی کردار ادا کررہے ہیں۔قومی اسمبلی میں قائد حزب اختلاف راجا ریاض نے کہا کہ ہم سب اکٹھے ہیں اور متفقہ طور پر مطالبہ کرتے ہیں سویڈن حکومت اس آدمی کے خلاف کارروائی کرے، اس نے جرم کیا ہے، یہ آزادی رائے نہیں بلکہ تقریباً دو ارب مسلمانوں کے جذبات مجروح ہوئے ہیں۔انہوںنے کہاکہ میرا مطالبہ ہے کہ ہماری آج کی قرارداد کے بعد سوئیڈن کی حکومت بھرپور کارروائی کرے اور اس آدمی کو سخت سزا دی جائے تاکہ دنیا میں آئندہ کوئی جرات نہ کرسکے کہ ہماری مقدس کتاب کی بے حرمتی کرے۔انہوں نے کہا کہ سوئیڈن کی حکومت پوری امت مسلمہ سے معافی مانگے کیونکہ ان کے شہری نے یہ فعل کیا ہے، وزیراعظم نے کل احتجاج کا اعلان کیا ہے تو اس میں پوری قوم اور ہم سب مل کر اس احتجاج میں شامل ہوں گے کیونکہ یہ ہمارا فرض ہے اور ہر پاکستانی اپنے جذبات کا اظہار کرے۔راجا ریاض نے کہا کہ یہاں پر صرف سیشن اور قرارداد ہونا کافی نہیں بلکہ حکومت اس قرارداد کو صرف سوئیڈن کی حکومت نہیں بلکہ ہر اس فورم تک پہنچایا جائے اور پیروی کی جائے اور وزارت خارجہ ہر فورم پر اپنا موقف رکھے کیونکہ پاکستان ایک بڑا اسلامی ملک ہے اس لیے بھرپور کردار ادا کرے جس کے لیے ہمار تعاون بھرپور ہوگا۔پاکستان پیپلزپارٹی سینیٹر یوسف رضا گیلانی نے پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ سویڈن میں جو واقعہ پیش آیا وہ بڑا خوف ناک واقعہ ہے، اس سے مسلمانوں کے دل ہل گئے ہیں اور ان کے جذبات مجروح ہوئے ہیں، ان کو بہت تکلیف ہوئی ہے۔انہوں نے کہا کہ اس کے لیے مذہب اسلام کی صحیح طریقے سے آگاہی نہیں دی گئی کیونکہ اسلام محبت، امن، اخوت، شفقت اور عدم تشدد کا پیغام دیتا ہے، اس وقت وہ مذہب اسلام کا چہرہ مسخ کر رہے ہیں، ان کا مقصد یہی ہے لیکن وہ اپنے ارادوں میں کامیاب نہیں ہوسکے اور آج اس طرح کی حرکتیں کرنا چاہتے ہیں۔انہوںنے کہاکہ اگر یہودیوں کے بارے میں ہولوکاسٹ کے ذریعے پابند کیا جاتا ہے تو ہمارے قرآن پاک کی بے حرمتی اور ہمارے حضور اکرمکی گستاخی کو بھی ہم ایسے ہی تصور کرتے ہیں بلکہ اس سے زیادہ کرتے ہیں۔یوسف رضا گیلانی نے کہا کہ بین الاقوامی قوانین ریاستوں کو پابند کرتا ہے کہ آپ کسی طریقے سے تشدد کو روکنا چاہیے اور اگر نہیں روکیں گے تو اس کے اثرات ریاستوں اور ملکوں پر ہوں گے تو دنیا میں اس کا غلط پیغام جائے گا۔انہوں نے کہا کہ وزیراعظم نے تجاویز مانگی ہیں تو ہمیں سب سے پہلے قومی پالیسی بنانی چاہیے، جو فورم آج آپ نے چنا ہے، اس میں آپ کی اتفاق رائے ہونی چاہیے کہ کیا تجاویز ہونی چاہیے تو پہلے قومی سطح پر اتفاق رائے اور پھر بین الاقوامی سطح پر اتفاق رائے پیدا کرنی چاہیے۔سابق وزیراعظم نے کہا کہ او آئی سی کے فورم کو بہت مو¿ثر طریقے سے استعمال کرنا چاہیے اور پوری دنیا میں پیغام جانا چاہیے کہ مذہب اسلام امن کا درس دیتا ہے۔انہوںنے کہاکہ جس قسم کی حرکت ہوئی ہے اس پر سویڈن نے احساس کرتے ہوئے مذمت کی ہے جس پر تھوڑی خوشی ہوئی لیکن مذمت کافی نہیں ہے، اس سے زیادہ موثر انداز میں انہیں اظہار کرنا چاہیے، پوپ نے بہت اچھا پیغام دیا۔انہوں نے کہا کہ پوپ نے عیسائیوں اور مسلمانوں کو لڑانے میں جو ایک کردار ہوسکتا تھا اس کو کم کردیا ہے اور ہمیں بھی عدم برداشت کا موقع ہاتھ جانے نہیں دینا چاہیے۔انہوںنے کہاکہ دفترخارجہ کو چاہیے کہ اس معاملے کو ہر فورم میں موثر طریقے سے لے کر جانا چاہیے اور بین الاقوامی قوانین کی بھی پیروی کرنی چاہیے۔