لاہور( نمائندہ خصوصی) وزیراعظم شہباز شریف نے کہا ہے کہ آئی ایم ایف کے ساتھ معاہدہ ہونا کوئی لمحہ فخریہ نہیں بلکہ لمحہ فکریہ ہے، قوم دعا کرے کہ یہ آخری مرتبہ ہو کہ پاکستان قرض لے رہا ہو اور اس کے بعد خدا کرے کہ ہمیں آئی ایم ایف کے پاس نہ جانا پڑے،آئی ایم ایف سے پیرس میں ہونے والی میٹنگ ٹرننگ پوائنٹ تھی جس کے بعد اسٹاف لیول کا معاہدہ ہوگیا ہے جو کہ بورڈ کی میٹنگ کے حوالے سے بہت بڑی سیڑھی ہے کیونکہ 12 جولائی کو بورڈ کی میٹنگ ہوگی جس کے لیے 3 ارب ڈالر کا اسٹینڈ بائے ایگری منٹ بنایا گیا ہے جو کہ 9 ماہ کا پروگرام ہے،گزشتہ 3 ماہ میں چین نے پاکستان کو دیوالیہ ہونے سے بچایا اور ان تین چار ماہ میں ملک کو ڈیفالٹ ہونے سے بچانے میںکلیدی کردار ادا کیا ہے جبکہ سعودی عرب نے 2 ارب ڈالر کا وعدہ کیا اس پر معاہدہ ہو چکا ہے اسی طرح متحدہ عرب امارات اور اسلامی ورلڈ بینک نے ایک ،ایک ارب ڈالر دینے کا وعدہ کیا،سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات سے قرض کے حصول کے لیے جہاں ہماری حکومت کی کوشش ہے وہیں نئے سپہ سالار کی بھی بڑی کوشش ہے جنہوں نے آگے بڑھ کر مدد کی اور ان ممالک سے روابط کیے اسی طرح وزیر خارجہ نے بھی بھرپور سفارت کاری کی،سری لنکن صدر نے بھی ہماری مدد کی،سابقہ حکمرانوں نے پاکستان کو بدنام کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی، یہاں تک کہا کہ پاکستان سری لنکا بننے جا رہا ہے، آئی ایم معاہدے کے خلاف دوصوبوں کے وزرائے خزانہ کو خطوط لکھنے کا کہا، میں بتانا چاہتا ہوں کہ 9 مئی کے واقعات بھی اس سازش کی کڑی ہے، یہ اس سے جڑی ہوئی ہے، یہ پاکستان کی تاریخ کا تاریک ترین دن تھا،سابقہ حکومت نے معیشت کو بری طرح سے تباہ کیا، اسی طریقے سے فتنہ سازی کی گئی، سورش پیدا کی گئی اور پاکستان کو سیاسی غیرمستحکم کرنے کے لیے زور لگایا گیا اور دن رات بیانیے بنائے گئے، پاکستان کی ترقی و خوشحالی کو ختم کرنے کے لیے سازشیں کی گئیں اور پاکستان کو بدنام کرنے کا کوئی طریقہ نہیں چھوڑا گیا ،باہر ممالک اور اداروں کو خبردار کیا گیا کہ اگر آپ نے پاکستان کی مدد کی تو امپورٹڈ حکومت سب کچھ برباد کردے گی۔ ان خیالات کا اظہار انہوںنے گورنر پنجاب محمد بلیغ الرحمان ، وزیر خزانہ اسحاق ڈار اور دیگر کے ہمراہ گورنر ہاﺅس میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے کیا ۔ وزیر اعظم شہباز شریف نے کہا کہ عوام پر تکالیف، معاشی بوجھ کی وجہ جاننا ضروری ہے،ایثار اور قربانی کا جذبہ خاندانوں اور قوموں کو مشکلات سے پاک کرتا ہے، قومی یکجہتی اور یکسوئی اور محنت ایسے عوامل ہیں جو قوموں کو مشکلات سے نکالتے ہیں۔2018 تک پاکستان نواز شریف کی قیادت میں بہت تیزی سے ترقی کی راہ پر گامزن تھا اور ہمارے بدترین ناقدین کو بھی اس پر اختلاف کرنے کی جرات نہ تھی کیونکہ اس وقت ہماری ترقی کی شرح 6.2 تھی اور پاکستان دنیا کی تیزی سے ترقی کرتی معیشتوں میں شمار ہونے لگا۔نواز شریف کی قیادت میں بڑی تیزی سے سی پیک معاہدے پر عمل ہوا، بجلی کے منصوبے مکمل ہوئے، پن بجلی کے منصوبوں پر کام شروع ہوا، سڑکوں کا جال بچھایا گیا اور شمسی توانائی سے منصوبے لگائے گئے،پاکستان دوسری قوموں کے ساتھ تیزی سے اس دوڑ میں بھاگ رہا تھا پھر بدترین دھاندلی کے ذریعے عمران نیازی کو اقتدار کے منصب پر زبردستی بٹھایا گیا اور 2018 تاریخ کا بدترین الیکشن تھا اور پھر اس کے نتیجے میں کیا ہوا کہ پہلے آئی ایم ایف کے ساتھ گفتگو میں اتنی ہچکچاہٹ دکھائی کہ اس میں 6 ماہ لگ گئے کہ گفتگو کرنی ہے یا نہیں کرنی اور جب معاہدہ ہوا تو سنگ دلی کے ساتھ اس کی دھجیاں اڑائی گئیں اور پاکستان کے وقار کو خاک میں ملانے کی ناپاک کوشش کی گئی جس کے نتیجے میں عالمی اداروں کا ہم پر سے اعتماد اٹھ گیا۔وزیراعظم شہباز شریف نے کہا کہ عالمی وبا ءکورونا کے دوران پوری دنیا میں تباہی آئی لیکن اس دوران جن چیزوں کو حاصل کیا جا سکتا تھا وہ بھی مجرمانہ غفلت کی وجہ سے گنوائی گئی، مثلاًگیس 3 ڈالر پر آگئی تھی مگر اس کے باجود بھی اس کا سودا نہیں کیا گیا، آج بڑی محنت کے بعد آذربائیجان کے ساتھ گیس کا معاہدہ کیا ہے۔انہوں نے کہا کہ مخلوط حکومت نے حتی الامکان بہتری کی کوشش کی، انسان ہیں ہم سے بھی ضرور غلطیاں ہوئی ہوں گی، لیکن جان بوجھ کر قومی خزانے میں خیانت نہیں کی گئی، اگر کوئی ایسی مثال ہے تو میرے سامنے رکھیں میں اس پر انکوائری کروں گا، اس 14 ماہ میں ہم نے جو گندم یا کھاد خریدی وہ سب سے کم بولی دینے والوں سے خریدے گئے جس میں اربوں روپے کی بچت ہوئی۔انہوں نے کہا کہ پیرس اجلاس میں سری لنکا کے صدر نے آئی ایم ایف سربراہ سے ملاقات کرانے میں مدد کی لیکن یہاں دوست نما دشمن پاکستان کو سری لنکا بنانے کی باتیں کر رہے تھے۔اس سے قبل میری آئی ایم ایف کے ساتھ ٹیلی فون پر ایک ایک گھٹنے سے زیادہ گفتگو ہوئی، خطوط لکھے اور اسحق ڈار اور ان کی ٹیم نے شرائط پوری کرنے کی بھرپور کوشش کی، اسٹیٹ بینک سمیت دیگر اداروں نے حصہ ڈالا لیکن اس کے باجود بھی بات نہیں بن رہی تھی لیکن پھر پیرس میں آئی ایم ایف سربراہ سے طویل ملاقات ہوئی۔ملاقات کے دوران آئی ایم ایف سربراہ نے کہا کہ اب 30 جون قریب ہے وقت نہیں رہا، پھر میں نے ان سے کہا کہ ہم نے آپ کی کون سی شرط تسلیم نہیں کی، ہم سب نے اپنا سیاسی سرمایہ دا ﺅپر لگالیا ہے صرف اس لیے کہ پاکستان کو دیوالیہ ہونے نہ دیں اور پاکستان کے استحکام کے لیے ہم نے کڑوے فیصلے کیے ہیں۔آئی ایم ایف سربراہ نے کہا کہ 2 ارب ڈالر کے گیپ کا کیا ہونا ہے جس کے بعد میں نے اسحق ڈار سے رابطہ کیا اور کہا کہ پاکستان کے مستقبل کا معاملہ ہے کچھ کریں، مجھے وہاں پتا چلا کہ اسلامک ورلڈ بینک کے چیئرمین آئے ہوئے اور میں نے اپنے سفیر کے ذریعے ان کو ملاقات کے لیے پیغام بھیجا اور ان سے ملاقات کرکے 2 ارب ڈالر دینے کی درخواست کی جس کے بعد انہوں نے واپس جاکر ایک ارب ڈالر کا اعلان کیا۔آئی ایم ایف سے پیرس میں ہونے والی میٹنگ ٹرننگ پوائنٹ تھی جس کے بعد اسٹاف لیول کا معاہدہ ہوگیا ہے جو کہ بورڈ کی میٹنگ کے حوالے سے بہت بڑی سیڑھی ہے کیونکہ 12 جولائی کو بورڈ کی میٹنگ ہوگی جس کے لیے 3 ارب ڈالر کا اسٹینڈ بائے ایگری منٹ بنایا گیا ہے جو کہ 9 ماہ کا پروگرام ہے۔وزیراعظم شہباز شریف نے کہا کہ اس حوالے سے آئی ایم ایف سربراہ اور ان کی ٹیم کا شکرگزار ہوں جنہوں نے پیرس ملاقات میں سنجیدگی دکھائی جبکہ میں پاکستان میں وزیر خزانہ اسحق ڈار اور ان کی ٹیم کا انتہائی شکر گزار ہوں جو کئی راتوں تک جاگتے رہے۔انہوں نے کہا کہ یہ کوئی لمحہ فخریہ نہیں بلکہ لمحہ فکریہ ہے ،قرضوں سے قومیں بستی اور خوشحال ہوتی ہیں ؟ایسا کبھی نہیں ہوتا یہ قرض ہمیں مجبوری میں لینا پڑ رہا ہے اور میں تمام پاکستانیوں سے کہتا ہوں کہ دعا کریں یہ آخری مرتبہ ہو کہ پاکستان قرض لے رہا ہو اور اس کے بعد خدا کرے کہ ہمیں آئی ایم ایف کے پاس نہ جانا پڑے۔انہوں نے کہا کہ ہمسایہ ملک نے 1991 میں آخری بار آئی ایم ایف سے معاہدہ کرکے اس کو خیرآباد کہہ دیا جبکہ ترکیہ نے 2007 میں معاہدہ کے بعد خیرآباد کہہ دیا لیکن ہم پتا نہیں کتنی بار آئی ایم ایف کے پاس گئے ہیں۔انہوں نے کہا کہ گزشتہ 3 ماہ میں چین نے پاکستان کو دیوالیہ ہونے سے بچایا اور ان تین چار ماہ میں ملک کو ڈیفالٹ ہونے سے بچانے میںکلیدی کردار ادا کیا ہے جبکہ سعودی عرب نے 2 ارب ڈالر کا وعدہ کیا اس پر معاہدہ ہو چکا ہے اسی طرح متحدہ عرب امارات اور اسلامی ورلڈ بینک نے ایک ،ایک ارب ڈالر دینے کا وعدہ کیا۔وزیراعظم شہباز شریف کہا کہ اب یہ زندگی گزارنے کا طریقہ نہیں ہے، جب میں برادر ممالک سے ملتا ہوں تو وہ سمجھتے ہیں چائے پی لی ہے اب شہباز شریف قرضوں کی بات کریں گے۔انہوں نے کہا کہ اللہ کے فضل سے پاکستان دیوالیہ ہونے سے بچ گیا ہے، دیوالیہ ہونے کے امکانات کم تھے لیکن نگران حکومت میں کیا ہوتا اور اگر خدانخواستہ دیوالیہ ہوجاتا تو میں خود کو معاف نہیں کر سکتا۔انہوں نے کہا کہ 9 مئی کو جو کچھ ہوا، وہ پاکستان کو تباہ کرنے کی گھناﺅنی سازش تھی، جس میں اندر اور باہر سے دوست نما دشمن بھی شامل تھے، انہوں نے 9 مئی کی سازش کی تاکہ نہ آئی ایم ایف کا پروگرام ہو اور نہ کچھ اور ہو، ملک ڈیفالٹ کرجائے، یہاں پر تباہی ہوجائے، انارکی ہوجائے۔وزیراعظم نے وضاحت کی کہ سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات سے قرض کے حصول کے لیے جہاں ہماری حکومت کی کوشش ہے وہیں نئے سپہ سالار کی بھی بڑی کوشش ہے جنہوں نے آگے بڑھ کر مدد کی اور ان ممالک سے روابط کیے اسی طرح وزیر خارجہ نے بھی بھرپور سفارت کاری کی۔انہوں نے کہا کہ قرضوں سے نکلنے کے پیش نظر زراعت کے لیے ہم نے جامع پروگرام بنایا ہے جبکہ آئی ٹی سیکٹر میں بھی اربوں روپے کی ایکسپورٹ کر سکتے ہیں ان اہداف کے لیے ماسٹر پلان بنایا ہے جس کو ریواﺅل آف پاکستان بھی کہتے ہیں۔وزیراعظم شہباز شریف نے کہا کہ میرا ایمان ہے کہ پاکستان ترقی کرے گا اور ہماری ترقی کو کوئی نہیں روک سکتا، لہٰذاہم نے یہ ماسٹر پلان بنایا ہے جس سے 40 لاکھ نوجوانوں کو روزگار ملے گا اور سب محنت و ایثار سے ہوگا۔وزیر اعظم شہباز شریف نے کہا کہ نواز شریف جلد وطن واپس آئیں گے اور پارٹی سمیت ملک کی باگ دوڑ سنبھالیں گے، مسلم لیگ (ن)عوامی ریلیف کیلئے اقدامات کرتی رہے گی، سانحہ نو مئی میں ملوث کوئی بھی شخص قانون سے نہیں بچ سکے گا، آئی ایس پی آر کی پریس کانفرنس کے بعد کسی بھی قسم کا ابہام نہیں ہونا چاہیے، بے گناہ لوگوں پر کوئی آنچ نہیں آئے گی البتہ جو اس میں ملوث تھے وہ کسی صورت نہیں بچ سکیں گے۔جن لوگوں نے سویلین املاک پر حملے اور توڑ پھوڑ کی ان کے خلاف انسداد دہشتگردی جبکہ فوجی املاک پر حملے کرنے والوں کے مقدمات فوجی عدالتوں میں چلیں گے، 9 مئی جیسی ملک دشمنی کی مثال دنیا کی تاریخ میں کہیں نہیں ملتی، ایسا نہیں ہو گا کہ ہم کسی بھی وجہ سے ملزمان کیلئے نرم گوشہ رکھیں، اگر ایسا ہوا تو پھر شرپسندوں کو مزید شہ مل جائے گی۔انہوں نے کہا کہ حکومت نے معیشت کو مستحکم کیا اور اب وقت آگیا ہے کہ شرح نمو کو بڑھانے پر توجہ دی جائے،حکومت اپنی مدت کی تکمیل تک ملک کے غیر ملکی ذخائر کو 14سے15 ارب ڈالر تک لے جائے گی۔انہوںنے کہا کہ آئی ایم ایف معاہدہ کے لیے وزیراعظم کی کاوشیں قابل تحسین ہیں، معاہدہ کے دوران مشکلات آئیں مگر اللہ تعالی نے کامیاب کیا۔گزشتہ 10 روز میں معاہدے کے لیے بین الاقوامی مالیاتی فنڈ کو آمادہ کیا، پاکستان کے اندر بھی اور پاکستان کے باہر بھی لوگ یہ مایوسی پھیلاتے رہے ہیں کہ کہ ملک ڈیفالٹ کرے گا اور وہ یہ بھی کہتے رہے کہ یہ ایک ارب ڈالر بانڈ ادا نہیں کر سکیں گے تاہم شہباز شریف کی وزارت عظمی کے دور میں بانڈ ادا ہوا۔انہوں نے کہا کہ نہ ہم نے بانڈ کی ادائیگی میں تاخیر کی اور نہ پیرس کلب سے رجوع کیا، ہم نے ہر ادائیگی وقت پر کی ہے، اس کے لیے اللہ تعالی کا جتنا شکر ادا کیا جائے کم ہے۔انہوں نے کہا کہ گزشتہ دور حکومت میں پاکستان کو معاشی طور پر نقصان پہنچایا گیا، کچھ لوگ ڈیفالٹ کی گمراہ کن افواہیں پھیلاتے رہے، ان شااللہ پاکستان کو دوبارہ 24ویں معیشت بنائیں گے۔انہوں نے کہا کہ وزیراعظم اور حکومت نے بجٹ میں جو وعدے کئے ہیں ان تمام پر سرعت کے ساتھ عملدرآمد کیا جائے گا۔انہوںنے کہا کہ آئی ایم ایف کے ساتھ معاہدہ میں وزیراعظم نے قائدانہ کردار ادا کیا جبکہ طارق باجوہ سمیت وزارت خزانہ کی ٹیم، سیکرٹری خزانہ امداد اللہ بوسال، علی طاہر اور وزیر مملکت خزانہ عائشہ غوث، گورنر اسٹیٹ بینک جمیل احمد، ایف بی آر کی ٹیم بشمول طارق پاشا نے بھی معاہدہ میں اپنا بھرپور کردار ادا کیا، انہوں نے سابق سیکریٹری خزانہ حامد شیخ کے کردار کو بھی سراہا،پوری ٹیم کی مشترکہ کاوشوں سے آئی ایم ایف معاہدہ ہوا، پاکستان ڈیفالٹ ہو گا نہ ہم ہونے دیں گے،پلان بی بھی یہی تھا کہ ہم نے ڈیفالٹ نہیں کرنا ، ہماری پہلی ترجیح یہ رہی ہے کہ پاکستان کے وقار اور نام پر حرف نہیں آنے دینا ہے۔انہوں نے کہا کہ پاکستان میں اکثر نظرثانی شدہ بجٹ اہداف پورے نہیں ہوتے لیکن چند دن پہلے پاکستان کی تاریخ کا ایک نیا ریکارڈ قائم کیا، 7151ارب روپے کا ایک نیا ریکارڈ ایف بی آر نے حاصل کیا،مالی سال 2023-24 کے دوران پٹرولیم لیوی کی اوسط 55روپے ہو گی جبکہ اس کی حد 60روپے مقرر کی گئی ہے۔وزیر خزانہ نے کہا کہ میں اس بات پر یقین رکھتا ہوں کہ ہمیں اپنے وسائل کے اندر رہنا چاہئے، ہم نے گز شتہ پانچ سال میں اپنے بیرونی وسائل سے زیادہ اخراجات کئے ہیں جہاں ملک میں جمہوریت ضروری ہے وہیں مالیاتی ڈسپلن بھی ضروری ہے۔