کراچی(اسٹاف رپورٹر) بزرگ صحافی ،کراچی یونین آف جرنلسٹس (دستور)کے سابق صدر اور کراچی پریس کلب کے ممبر علی حمزہ خان(برادر)جمعہ کوبہ رضائے الہی وفات پاگئے، ان کی عمر82 برس تھی اور انہوں نے پس ماندگان میں بیوہ اور دو صاحب زادے عبید حمزہ اور طارق حمزہ سوگوار چھوڑے ہیں۔ برادر علی حمزہ کی نماز جنازہ جمعہ کو بعد نماز عشا جامع مسجد شادمان ٹاﺅن میں ادا کی گئی جس میں ان کے عزیز واقارب، صحافیوں، وکلا اور اہل محلہ نے بڑی تعداد میں شرکت کی، بعد ازاں انہیں سخی حسن قبرستان میں سپرد خاک کر دیا گیا۔ مرحوم اپنے حلقہ احباب میں اپنے حسن اخلاق، ملنسار طبیعت، خوشگوار مزاج اور ہر ایک سے برادرانہ اور ہمدردانہ تعلقات رکھنے کی وجہ سے برادر حمزہ کے نام سے جانے اور پہچانے جاتے تھے، برادر حمزہ کسی شخصیت نہیں بلکہ ایک ادارے کا نام تھا۔ انہوں نے اپنے کام سے صحافت کے شعبے کو اعتبار بخشا اور کورٹ رپورٹنگ کے حوالے سے تو وہ سند کی حیثیت رکھتے تھے۔اپنے 60 سالہ صحافتی کیریئر میں انہوں نے خود کو ماتحت عدالتوں اور اعلیٰ عدالتوں کی رپورٹنگ تک ہی محدود رکھا اور ایک پروفیشنل رپورٹر کے طور پر اپنی شناخت بنائی۔انہوں نے درجنوں نوآموز کورٹ رپورٹروں کی تربیت کر کے بابائے کورٹ رپورٹرز کا لقب پایا، انہیں یہ اعزاز حاصل تھا کہ جج حضرات بھی انہیں برادر کہہ کر مخاطب کیا کرتے تھے۔ بردار حمزہ نے ایک غریب خاندان میں آنکھ کھولی۔ ذرابڑے ہوئے تو اسکول میں داخل ہوئے، گھریلو حالات ساز گار نہ تھے۔ اس لئے تعلیم کے ساتھ ساتھ روزگار کی تلاش شروع کر دی۔ دوران تعلیم ہی انہیں بابر مارکیٹ لانڈھی میں اخبار فروشی کا کام مل گیا اور وہ ہاکر بن گئے۔ اخبار بیچتے بیچتے ان کا اخبار نویسی کی طرف رجحان ہوا اور اس کو اپنا کریئر بنانے کا فیصلہ کر لیا۔ انہوں نے اخبار فروشی کے ساتھ ساتھ تعلیم کا سلسلہ بھی جاری رکھا اور بی اے کر لیا۔ 1967ء میں کراچی سے روزنامہ مشرق کا اجرا ہوا تو کچھ عرصہ بعد اس سے وابستہ ہو گئے اور ماتحت عدالتوں کی رپورٹنگ سے اپنے صحافتی کیریئر کا آغاز کیا اور بہت کم عرصے کی محنت اور کام میں توجہ اور لگن سے اپنی مستند کورٹ رپورٹر کے طور پر اپنی شناخت بنالی۔ بتایا جاتا ہے کہ ان دنوں وہ اپنی پیرانہ سالی کے سبب گھر تک محدود تھے۔