کراچی (نمائندہ خصوصی) پاکستانی روپے کی قدر رواں مالی سال یعنی 2023 کے اختتام پذیر ہونے تک 28 فیصد گراوٹ کا شکار ہوچکی ہے۔ایک بڑے مالیاتی گروپ کے تجزیے کے مطابق یہ مسلسل تیسرا مالی سال ہے جب روپے کی قدر میں ڈالر کے مقابلے میں کمی آرہی ہے اور تخمینہ ہے کہ نئے مالی سال کے دوران جس کا آغاز یکم جولائی سے ہوگا یعنی مالی سال 2024 کے دوران روپے کی قدر میں مزید 10 سے 12 فیصد کمی ہوگی اور ایک ڈالر 320 پاکستانی روپے کے مساوی ہوسکتا ہے۔واضح رہے کہ مالی سال 2022 کے دوران روپے کی قدر میں 22 فیصد کمی ہوئی تھی اور اس سال ایک ڈالر 204 پاکستانی روپے کے مساوی تھا۔عارف حبیب لمیٹڈ کے ہیڈ آف ریسرچ طاہر عباس نے بتایا کہ سال 2023 کے دوران روپے کی قدر میں 28 فیصد اب تک سب سے بڑی کمی ہے جس کی وجوہات میں بیرونی قرضوں کی ادائیگیوں کا دبا جس کے باعث زرمبادلہ کے ذخائر میں کمی واقع ہوئی جبکہ آئی ایم ایف پروگرام کی معطلی کے باعث بیرونی ملک سے سرمایے کی آمد بھی متاثر ہوئی ہے۔ان کا مزید کہنا تھا کہ پیر کے روز اسٹاک مارکیٹ میں 1300 پوائنٹس کا اضافہ اور منگل کے روز روپے کی قدر میں قدرے بہتری سے امید ہے کہ آئی ایم ایف پاکستان کے لیے 6 ارب 70 کروڑ ڈالر قرض پروگرام پر بات چیت دوبارہ شروع کرے گا جس کی ڈیڈلائن 30 جون کو ختم ہورہی ہے تاہم آئی ایم ایف سے مذاکرات کی بحالی کا امکان 50 فیصد نظر آتا ہے کیونکہ ملکی صورت حال بہرحال اب تک بے یقینی کا شکار ہے۔طاہر عباس نے کہا کہ پاکستانی روپے کا مستقبل اس وقت کشمکش کا شکار ہے کیونکہ آئی ایم ایف پروگرام بحال ہوجاتا ہے تو امید ہے کہ ڈالر کے مقابلے میں اس کی قدر میں استحکام آئے گا اور جس کے بعد دیگر عالمی ادارے بھی پاکستان کو قرض فراہم کرنے پر رضامندی ظاہر کردیں گے جس سے زرمبادلہ کے ذخائر بڑھانے میں بھی کافی مدد ملے گی۔تاہم اگر جون کے اختتام تک آئی ایم ایف پروگرام بحال نہیں ہوتا تو اس صورت میں روپے کی قدر بے یقینی کا شکار رہے گی اور اس میں کمی واقع ہوتی رہے گی تاوقتیکہ پاکستان اس سال دسمبر یا آئندہ سال جنوری میں ایک بار پھر آئی ایم ایف سے نئے پروگرام کے لیے مذاکرات کا آغاز کرے۔