کراچی(نمائندہ خصوصی) وفاقی بجٹ ترامیم میں جوسز پر فیڈرل ایکسائز ڈیوٹی 10 فیصد سے بڑھا کر 20 فیصد کرنے سے جوسز انڈسٹری مشکلات میں گھرنے کے خدشات سمیت جوسز انڈسٹری میں کی گئی کروڑوں روپے کی سرمایہ کاری کوبھی ایک دھچکا لگاہے۔ ماہرین کاخیال ہے کہ گلوبل وارمنگ کے اثرات کی بنائ پر پاکستان میں لکویڈ اور جوسز کو عام طبقہ کی قوت خرید میں لانا ضروری ہے تاکہ انسانی صحت پر گلوبل وارمنگ کے اثرات کو محدود کیا جاسکے۔ اس ضمن میں سرپرست اعلیٰ پاکستان فروٹس اینڈ ویجیٹیبل ایکسپورٹرز ایسوسی ایشن( پی ایف وی اے) وحید احمد کے مطابق پاکستان پہلے ہی غذائی قلت کا شکار ہے جوسز پر ٹیکسوں کی بھرمار عوام کو غذائیت کی فراہمی میں رکاوٹ ہے۔ انکاکہناتھا کہ حکومت کی جانب سے جوسز پر فیڈرل ایکسائز ڈیوٹی کی شرح بڑھانے جانے سے جوسز انڈسٹری کی سرمایہ کاری کی ساتھ زراعت کا شعبہ بھی متاثر ہوگا اور کسانوں کی آمدن میں کمی واقع ہوگی۔ وحیداحمد نے کہا کہ وفاقی حکومت ایک جانب ایگروٹیک انڈسٹریز کے قیام پر ٹیکس مراعات دے رہی ہے تو دوسری جانب جوسز پر ٹیکس اور ایف ای ڈی بڑھاکر ایگروٹیک میں سرمایہ کاری کو مشکل بنایا جارہا ہے۔ انہوں نے مطالبہ کیاکہ وفاقی وزیر خزانہ اپنے بجٹ اعلانات اور اقدامات میں اس ابہام اور فرق کو دور کریں اور جوسز پر سیلز ٹیکس اور ایف ای ڈی میں کمی لائی جائے۔