اسلام آباد (نمائندہ خصوصی )قومی اسمبلی نے آئی ایم ایف کے مطالبے پر ٹیکس کا ہدف 215 ارب روپے بڑھا کر 94 کھرب 15 روپے کرنے کے بعد آئندہ مالی سال 24-2023 کےلئے 14ہزار 480 ارب روپے کے وفاقی بجٹ کی کثرت رائے سے منظور ی دیدی ۔ اتوار کو قومی اسمبلی میں فنانس بل کی منظوری کےلئے اسپیکر راجا پرویز اشرف کی زیرصدارت اجلاس ہوا ۔اسپیکر قومی اسمبلی راجہ پرویز اشرف نے یکے بعد دیگرے بل کی تمام شقوں کو ایوان میں منظوری کے لئے پیش کیا جس میں مولانا عبدالاکبر چترالی، سائرہ بانو، نثار چیمہ، زہرہ ودود فاطمی، نواب شیر وسیر، آسیہ عظیم اور دیگر مختلف شقوں پر ترامیم پیش کیں جن کو ایوان نے کثرت رائے سے مسترد کر دیا جبکہ مولانا عبدالاکبر چترالی کی ایک ترمیم ایوان نے بل میں شامل کرنے کی منظوری دیدی۔ اس طرح بل میں ایم کیو ایم رکن صلاح الدین کی ترمیم کو بھی ایوان نے مسترد کر دیا۔ فنانس بل میں ک±ل 9 ترامیم کی گئی ہیں، ان میں سے 8 ترامیم حکومت، ایک اپوزیشن کی جانب سے شامل کی گئی ہے۔ٹیکس وصولیوں کا ہدف 9 ہزار 200 سے بڑھا کر 9 ہزار 415 ارب مقرر کردیا گیا ہے، پنشن ادائیگی 761 ارب سے بڑھا کر 801 ارب کر دی گئی، علاوہ ازیں این ایف سی کے تحت صوبوں کو 5 ہزار 276 ارب کے بجائے 5 ہزار 390 ارب ملیں گے۔جماعت اسلامی سے تعلق رکھنے والے اپوزیشن رکن قومی اسمبلی مولانا عبدالاکبر چترالی نے فنانس بل اسلامی نظریاتی کونسل کو اسلامی پیمانے پر جانچنے کے لیے بھیجنے کا مطالبہ کیا تاہم عبدالاکبر چترالی کے سوا تمام حکومتی و اپوزیشن اراکین قومی اسمبلی نے فنانس بل میں سود شامل ہونے کی وجہ سے اس پر اسلامی نظریاتی کونسل کی رائے لینے کی مخالفت کر دی۔دریں اثنا مولانا عبد الاکبر چترالی کی جانب سے پیش کی گئی ترمیم منظور کر لی گئی جس کے تحت چیئرمین قائمہ کمیٹی کو 1200 سی سی گاڑی استعمال کرنے کا اختیار ہوگا۔خیال رہے کہ اس سے پہلے 1300 سی سی سے 1600 سی سی گاڑی استعمال کرنے کی اجازت تھی۔دریں اثنا وزیر خزانہ نے پٹرولیم ڈیولپمنٹ لیوی آرڈیننس میں ترمیم پیش کر دی جوکہ قومی اسمبلی نے کثرت رائے سے ترمیم منظور کرلی۔ترمیم کے تحت پیٹرولیم ڈیولپمنٹ لیوی کی حد 50 روپے فی لیٹر سے بڑھا کر 60 روپے فی لیٹر کردی گئی، وفاقی حکومت کو 60 روپے فی لیٹر تک لیوی عائد کرنے کا اختیار ہوگا۔وزیر خزانہ اسحاق ڈار نے فنانس بل کی شق 3 میں ترمیم پیش کی جوکہ قومی اسمبلی نے کثرت رائے سے منظور کر لی۔ترمیم کے مطابق 3200 ارب روپے کے زیر التوا 62 ہزار کیسز سمیت تنازعات کے حل کے لیے 3 رکنی کمیٹی تشکیل دی جائے گی، کمیٹی کے فیصلے کے خلاف ایف بی آر اپیل دائر نہیں کرسکے گا، متاثرہ فریق کو عدالت سے رجوع کرنے کا اختیار ہوگا۔پرانی ٹیکنالوجی کے حامل پنکھوں اور بلبوں پر اضافی ٹیکسوں کی ترمیم بھی منظور کر لی گئی۔پرانی ٹیکنالوجی کے حامل پنکھوں پر یکم جنوری سے 2 ہزار روپے ٹیکس ہوگا جبکہ پرانے بلبوں پر یکم جنوری سے 20 فیصد ٹیکس عائد ہوگا۔فنانس بل میں مزید ترامیم کے تحت 215 ارب کے نئے ٹیکس عائد کئے گئے ہیں، دریں اثنا قومی اسمبلی نے فنانس بل 2023 کی کثرت رائے سے منظوری دے دی۔علاوہ ازیں اجلاس کے دوران ایوان نے مالی سال 22-2021، مالی سال 23-2022 کی ضمنی گرانٹس کی منظوری بھی دے دی۔اجلاس میں اظہار خیال کرتے ہوئے پیپلزپارٹی کے رکن قومی اسمبلی خورشید شاہ نے کہا کہ دو پنشنز پر پابندی لگائی گئی یہ اچھا اقدام ہے، اخباروں میں آیا ہے پنشنرز پر دوسرا کام کرنے کی پابندی لگائی گئی ہے۔انہوں نے کہا کہ ایک فیکٹری کے لیے معیشت کو کریش کرنا کہاں کی عقلمندی ہے، دنیا چاہتی ہے پاکستان ایگریکلچر ملک ہے یہ تباہ ہو جائے۔اسحق ڈار نے جواب دیا کہ زراعت کے شعبے سے ہمارا بھی اتنا ہی مفاد جڑا ہے جتنا کسی اور کا ہے، میری بھی یہی ترجیح ہے تاہم کبھی ملک کی ترقی کے لیے چند اقدام اٹھانے پڑیں تو یہ بھی ضروری ہے، بجٹ کے بعد ساتھ بیٹھ کر اس کا حل نکال لیں گے۔انہوں نے کہا کہ پنشن اصلاحات جیسی دیگر اصلاحات کی ہمیں اشد ضرورت ہے، اس بجٹ میں ہمارا 800 ارب پنشن پر چلا گیا، یہ ایک خطیر رقم ہے، چند برس قبل یہ اس سے آدھا ہوتا تھا۔انہوں نے کہا کہ ہمیں اصلاحات کی طرف جانا ہوگا ورنہ ایک وقت آئے گا جب یہ بوجھ ناقابل برداشت ہوجائے گا۔اسحٰق ڈار نے کہا کہ کنٹریکٹ پر کام کرنے والے سرکاری ملازمین کو 2 پنشز میں سے بڑی پنشن کا انتخاب کرنے کا اختیار ہوگا۔انہوں نے کہا کہ یہ بہت پرانا مسئلہ چل رہا ہے اسے بہت پہلے ٹھیک ہوجانا چاہیے تھا، حکومت نے سرکاری افسران کے ایک سے زائد پنشنز لینے پر پابندی عائد کردی ہے، یہ غریب ملک پر بہت بڑا بوجھ تھا، گریڈ 17 سے نیچے والے ملازمین کے لیے یہ شرط لاگو نہیں، گریڈ 17 سےاوپر والے ملازمین کو ایک پنشن لینا ہوگی۔وزیرخزانہ نے کہا کہ اصولی بات ہے کہ آپ کو ایک پنشن ضرور ملنی چاہیے لیکن یہاں مختلف سرکاری عہدوں پر رہنے والے لوگ ایک سے زیادہ پنشن لیتے رہے ہیں، یہ پنشنز کئی کئی نسلوں تک چلتی رہیں، ملک میں بعض لوگ بیک وقت آرمی چیف، صدر اور چیف ایگزیکٹو کی پنشن لیتے رہے۔وفاقی وزیر مواصلات مولانا اسعد محمود نے اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ ضم شدہ اضلاع سے 10 برسوں میں فنڈز کی فراہمی اور پانچ سال ٹیکسوں میں چھوٹ دی گئی تاکہ انضمام کے بعد ان علاقوں کو سہولیات دی جائیں، سینیٹ نے سابق فاٹا میں ٹیکسوں میں مزید پانچ سال کی چھوٹ دی ہے۔ ہم نے کابینہ میں وزیراعظم اور وزیر خزانہ سے مطالبہ کیا تھا کہ صنعتوں کو ایک سال کی چھوٹ دی جائے ، جب تک فنڈز کے حوالے سے اپنے وعدے پورے نہیں ہوتے اس وقت تک سابق فاٹا میں چھوٹ اور رعایتی برقرار رکھی جائے، پارلیمان کو فیصلہ کرناہے کہ وہ سابق فاٹا کے لوگوں کو مشکل حالات میں کیا سہولیات دیتی ہے، فاٹا کے لوگ مشکلات کا شکار ہیں۔ وزیر مواصلات نے کہا کہ کل میری وزارت کے حوالے سے ایک رکن نے بات کی ہے، کراچی میں ایک لاکھ نفوس پر ایک پوسٹ مین تعینات ہے، ریکروٹمنٹ کے حوالہ سے پالیسی موجود ہے۔ انہوں نے کہا کہ اس حوالے سے تحریک استحقاق پر کمیٹی کام کر رہی ہے، کمیٹی کی رپورٹ کو ایوان میں پیش کرنا چاہیے، انتظامی امور میں کسی کو رعایت نہیں ملنی چاہیے، پوسٹل سروس اور دیگر وزارتوں کی بھرتی کا طریقہ کار ہوتا ہے، اگر طریقہ کار کی پیروی ثابت نہیں ہوتی تو میں وزارت سے استعفیٰ دیدوں گا۔ انہوں نے کہا کہ وزارت مواصلات کی رینکنگ ایک سال کی مدت میں 80 سے 54 نمبر پر آ گئی ہے، حیدر آباد، سکھر موٹروے کا افتتاح کر دیا گیا ہے، کراچی سے لاہور تک جی ٹی روڈ پر تعمیر و مرمت کا کام بھی شروع ہو چکا ہے، ایک سال کے اندر دو ہزار کے قریب کنٹریکٹ ملازمین کو ریگولر کر دیا گیا ہے، ہم اس وزارت کو امانت سمجھتے ہیں۔یاد رہے کہ گزشتہ روز حکومت نے آئی ایم ایف معاہدہ حاصل کرنے کی کوشش کرتے ہوئے 9 جون کو پیش کردہ وفاقی بجٹ میں متعدد تبدیلیاں کی تھیں جن کے بارے میں گزشتہ روز وزیر خزانہ نے ایوان کو آگاہ کیا ۔ وزیر خزانہ نے کہا تھا کہ حکومت کے محصولات کی وصولی کے ہدف کو 94 کھرب 15 ارب 9 تک لے جایا گیا ہے اور مجموعی اخراجات کا ہدف 144 کھرب 80 ارب روپے رکھا گیا ہے، صوبوں کا حصہ 52 کھرب 80 ارب روپے سے بڑھا کر 53 کھرب 90 ارب روپے کردیا گیا ہے۔اتوار کو قومی اسمبلی سے فنانس بل کی منظوری کے عمل کے دوران اراکین کی اکثریت ایوان سے غائب نظر آئی۔وزیراعظم سمیت اہم پارلیمانی رہنما ایوان میں موجود نہیں تھے ،بلاول بھٹو، آصف زرداری، راجا ریاض، اختر مینگل، امیر حیدر ہوتی بھی غیر حاضر رہے۔ایوان میں حکومتی بینچز پر 70، اپوزیشن بینچز پر 2 اراکین موجود نظر آئے۔