اسلام آباد (کورٹ رپورٹر)
سپریم کورٹ میں ملٹری ٹرائل کے خلاف درخواستوں کے سماعت کے دوران اٹارنی جنرل منصور عثمان اعوان نے بتایا ہے کہ ملٹری کسٹڈی میں 102 افراد ہیں، کوئی بھی خاتون،صحافی یا وکیل ملٹری کسٹڈی میں نہیں۔ چیف جسٹس کی سربراہی میں 7 رکنی بینچ نے سپریم کورٹ میں فوجی عدالتوں میں سویلین کےٹرائل کےخلاف درخواستوں پر سماعت کی۔سماعت کے دوران عدالت نے اٹارنی جنرل کو روسٹرم پر بلالیا۔ اس موقع پر اٹارنی جنرل کا کہنا تھاکہ گزشتہ روز کے حکم نامے میں 3 سوالات مجھ سے پوچھے گئے، اسلام آباد میں کوئی بھی فرد پولیس کی تحویل میں نہیں ہے، 4 افراد کے پی میں زیر حراست ہیں۔ اس دوران چیف جسٹس نے اٹارنی جنرل سے سوال کیا کہ یہ آپ سویلین کسٹڈی کی بات کررہے ہیں؟ اس پر انہوں نے کہا کہ جی یہ سول کسٹڈی کا ڈیٹا ہے
اٹارنی جنرل منصورعثمان اعوان نے اپنی بات جاری رکھی اور بتایا کہ پنجاب میں ایم پی اوکے تحت 41 ، اے ٹی اے کے تحت 141 افراد تحویل میں ہیں، پنجاب میں 81 خواتین کو حراست میں لیا گیا تھا،42 کو بری کردیا گیا، اس کے علاوہ سندھ میں کوئی بھی پولیس کی حراست میں نہیں ہے، سندھ میں 172 افراد جوڈیشل کسٹڈی میں ہیں، سندھ میں 70 افراد کو ضمانت دی گئی ہے اور 117 افراد 3 ایم پی او کے تحت حراست میں ہیں منصورعثمان اعوان کا کہنا تھاکہ ملٹری کسٹڈی میں 102 افراد ہیں، کوئی بھی خاتون، صحافی یا وکیل ملٹری کسٹڈی میں نہیں، 9 اور 10 مئی واقعات میں کوئی خاتون ملٹری کسٹڈی میں نہیں، کوئی خاتون ملٹری کسٹڈی میں نہیں اس لیےخواتین کا فوجی عدالتوں میں ٹرائل نہیں ہوگا۔چیف جسٹس پاکستان نے سوال کیا کہ کیا صحافیوں اور وکلا کیلئے کوئی پالیسی بنائی گئی ہے؟ اس پر اٹارنی جنرل کا کہنا تھاکہ وفاقی حکومت کامؤقف واضح ہے، 9 اور 10 مئی واقعات پرکسی صحافی یا وکیل کوگرفتارنہیں کیا جائے گا، شناخت پریڈ کی جارہی ہے جو کوئی ملوث نہ ہوا توگرفتاری نہیں ہوگی۔بعدازاں عدالت نے درخواستوں پر سماعت پیر 26 جون کی صبح ساڑھے 9 بجے تک ملتوی کردی اور چیف جسٹس نے کہا کہ پیر کو سلمان اکرم راجہ کے دلائل سے سماعت کا آغازکیا جائے گا، ازخود نوٹس لیں گے اور نہ جوڈیشل آرڈرکریں گے لیکن تمام چیزیں نوٹ کررہے ہیں، کوشش ہوگی کہ اس کیس کا نتیجہ منگل تک نکل آئے۔