اسلام آباد /برلن( نمائندہ خصوصی/نیٹ نیوز ) پاکستان نے بین الاقوامی کی پاسداری کی روایت برقرار رکھی،فنانشل ایکشن ٹاسک فورس (ایف اے ٹی ایف) میں دیئے گئے اہداف مکمل کر لیے گئے۔میڈیا رپورٹ کے مطابق پاکستان نے تمام نکات پر عمل درآمدکرکے ایک ذمہ دار ریاست کا ثبوت دیا،افواج پاکستان نے اس میں بھی کلیدی کردار ادا کیا اور حکومت اور قومی اداروں کے ساتھ مل کر تمام نکات پر عملدرآمد یقینی بنایا، بھارتی کوشش تھی کہ پاکستان کو ہر حال میں بلیک لسٹ کر دیا جائے، پاک فوج نے اس سازش کو بھی ناکام بنایا،ایف اے ٹی ایف کے تحت ٹیرر فنائسنگ کے 27 میں سے 27 پوائنٹ اور منی لانڈرنگ کے 7 میں سے 7 پوائنٹس پر عمل درآمد کو یقینی بنایا۔ دونوں ایکشن پلانزکل ملا کر34 نکات پر مشتمل تھے۔اینٹی منی لانڈرنگ اور کاونٹر ٹریرسٹ فائناسنگ پر مبنی اس ایکشن پلان کو 4 سال کی مسلسل کوششوں کے بعدمکمل کیا، پاکستان کو گرے لسٹ سے وائٹ لسٹ کی طرف گامزن کیا اس حوالے سے حکومت سے مشاورت کے بعد چیف آف آرمی سٹاف کے احکامات پر 2019 میں جی ایچ کیو میں ڈی جی ایم او کی سربراہی میں سپیشل سیل قائم کیا۔
جی ایچ کیو سیل نے جب اس کام کی ذمہ داری سنبھالی تو اس وقت صرف 5 نکات پر پیشرفت تھی اس سیل نے 30 سے زائد محکموں، وزارتوں اور ایجنسیز کے درمیان کوارڈینیشن میکنزم بنایا ہر پوائنٹ پر ایک مکمل ایکشن پلان بنایا اور اس پر ان تمام محکموں، وزارتوں اور ایجنسیز سے عمل درآمد بھی کروایا۔جی ایچ کیو میں قائم سیل نے دن رات کام کرکے منی لانڈرنگ اور ٹیرر فائننسنگ پر ایک مؤثر لائحہ عمل ترتیب دیا، جس کی وجہ سے ایف اے ٹی ایف میں کامیابی حاصل ہوئی، پاکستان نے اپنا 2021 کا ایکشن پلان ایف اے ٹی ایف کی طرف سے مقرر کردہ ٹائم لائنز یعنی جنوری 2023 سے پہلے مکمل کر لیا۔ایف اے ٹی ایف ٹیمیں ستمبر 2022ء تک پاکستان میں اینٹی منی لانڈرنگ (AML) اور کاونٹر ٹریرسٹ فائناسنگ (CFT) سسٹمز کی پائیداری اور ناقابل واپسی کو چیک کرنے کیلئے جلد ہی آن سائٹ وزٹ کریں گی جس کے بعد 22 اکتوبر تک وائٹ لسٹنگ کی راہ ہموار ہو گی، پاکستان میں منی لانڈرنگ کے 800 سے زائد کیسز رپورٹ ہوئے جن کی گزشتہ 13 مہینوں کے دوران تحقیقات مکمل کی گئیں۔میڈیا رپورٹ کے مطابق فنانشل ایکشن ٹاسک فورس آن منی لانڈرنگ ایک عالمی ادارہ ہے جو جی 7 ممالک (امریکا، برطانیہ، کینیڈا، فرانس، اٹلی، جرمنی اور جاپان) کی ایما پر بنایا گیا، اس ادارے کا مقصد ان ممالک پر نظر رکھنا اور اقتصادی پابندیاں عائد کرنا ہے
جو دہشت گردی کے خلاف عالمی کوششوں میں تعاون نہیں کرتے اور عالمی امن کے لیے خطرہ قرار دیے گئے دہشت گردوں کے ساتھ مالی تعاون کرتے ہیں۔فنانشل ایکشن ٹاسک فورس کے قیام کا فیصلہ 1989ء میں تقریباً 33 سال قبل جی 7 ملکوں نے فرانس میں منعقدہ اجلاس میں کیا تھا، بعد ازاں جی سیون اتحاد کے ممبران کی تعداد 16 ہوئی جو اب بڑھ کر 39 ہوچکی ہے، ایف اے ٹی ایف میں 37 ممالک اور 2 علاقائی تعاون کی تنظمیں شامل ہیں۔ پاکستان ایف اے ٹی ایف سے وابستہ ایشیا پیسیفک گروپ کا حصہ ہے، اس تنظیم کی براہِ راست اور بالواسطہ وسعت 180 ممالک تک ہے۔ایف اے ٹی ایف ایک ٹاسک فورس ہے
جو حکومتوں نے باہمی اشتراک سے تشکیل دی ہے۔ ٹاسک فورس کے قیام کا مقصد منی لانڈرنگ کے خلاف مشترکہ اقدامات تھا، امریکا میں 11 ستمبر 2001ء کو ورلڈ ٹریڈ سینٹر پر حملوں کے بعد یہ ضرورت محسوس ہوئی دہشتگردی کیلئے فنڈز کی فراہمی کی بھی روک تھام کے لیے مشترکہ اقدامات کی ضرورت ہے، جس کے بعد اکتوبر 2001 میں ایف اے ٹی ایف کے مقاصد میں منی لانڈرنگ کے ساتھ دہشت گردی کی فنانسنگ کو بھی شامل کرلیا گیا۔ اپریل 2012 میں بڑے پیمانے پر ہتھیاروں کی فنانسنگ پر نظر رکھنے اور اس کی روک تھام کے اقدامات پر عملدرا?مد کروانے کی ذمہ داری اسی ٹاسک فورس کے سپرد کی گئی۔ایف اے ٹی ایف منی لانڈرنگ اور دہشت گردی کی فنانسنگ کے حوالے سے دنیا بھر میں یکساں قوانین لاگو کروانے اور ان پر عمل کی نگرانی کرنے کا فریضہ سرانجام دیتی ہے،اس کی کوشش ہے کہ اس کے ہر رکن ملک میں مالیاتی قوانین کی یکساں تعریف پرعملدرآمد کیا جائے اور ان پر یکساں طور پر عمل بھی کیا جائے تاکہ دنیا میں لوٹ کھسوٹ سے حاصل ہونیوالی دولت کی نقل و حرکت کو مشکل ترین بنا دیا جائے اور لوگوں کیلئے اس قسم کی دولت رکھنا ناممکن بن جائے۔ایف اے ٹی ایف نے اپنے قیام کے پہلے 2 برسوں میں تیزی سے کام کیا اور 1990ء تک تجاویز کا پہلا مسودہ تیار کیا۔ بعدازاں 1996ء، 2001ء، 2003ء اور 2012ء میں یہ اپنی دیگر تجاویز بھی پیش کرچکی ہے۔