کراچی (رپورٹ۔اسلم شاہ)مرتضی وہاب صدیقی کراچی کے میئرکا انتخاب میں کامیابی کے باوجود وہ منتخب میئر نہیں ہوں گے،براہ راست انتخابات لڑنے پر چھ ماہ کے دوران انہیں یونین کونسل نشست میں ایک سے منتخب ہونے شرائط عائد ہے، دوسری جانب جماعت اسلامی کی جانب سے سندھ ہائی کورٹ میں براہ راست میئر منتخب ہونے کے 11مئی کے قانون کا چیلنج رکھا ہے یہ تلوار بھی لٹک رہی ہے عدالت نے بھی مقدمہ سماعت کے لئے مقرر کردیا ہے عدالتی تعطلات کے باقاعدہ سماعت ہوگئی اور فریقین کے بحث کیا جائے گامرتضی وہاب صرف ملک کے سب سے بڑے شہر کراچی کے چھ ماہ کے میئر ہوں گے،یہ قانون پیپلز پارٹی نے صرف مرتضی وہاب کے لئے خود ترامیم کرکے براہ راست انتخاب کا طریقہ کار سے موقع دیاگیا تھا9مئی کے بعد ملک بھر میں ریاست اورسیاست پر تحریک انصاف پر کریک ڈوان کیا جارہا ہے جس کے نتیجہ میں پیپلز پارٹی کی قیادت نے کراچی کے بلدیاتی نمائندوں کی بساط پلٹ دی اور کراچی کے بلدیاتی ادروں پر قبضہ کرنے علمدآمد کا آغاز کیا تھامبینہ طور پر 18یونین کونسل کے چیئرمینوں کو پیپلز پارٹی نے ایک علحدہ گروپ تشکیل دینے کی تصدیق بعض حلقے کررہے تھے، دیگر 12ارکان بھی اندرون خانہ حمایت کررہے تھے 32ارکان میئر کراچی کے انتخاب میں مقررہ وقت پر نہیں پہنچ سکیں ان کو بعض موقع پر مراعات سے نوازہ جائیگاتحریک انصاف کی مقامی قیادت نے صدر، شاہ فصیل ٹاون، مومن آباد ٹاون سے چیئرمین و ایئس چیئرمین کامیابی بھی پیپلرپارٹی سے جوڑتوڑ کا نتیجہ قراردیا جارہا ہے 9ٹاون پر جماعت اسلامی نے کامیاب ہوئے اور پیپلز پارٹی نے 12ٹاون کے چیئرمین وائس چیئرمین کامیاب ہوئیے، اس سے قبل سندھ لوکل گورٹمنٹ آرڈئنس 2013ء میں میئر کراچی کا انتخاب میں یونین کونسل کے چیئرمینوں جو کہ سٹی کونسل کے رکن ہے وہ انتخاب میں حصہ لینے کا اختیار حاصل تھا وسیم اختر بھی یونین کونسل سے انتخاب میں کامیابی کے بعد 2018میئر کراچی منتخب ہوئے تھے اور مرتضی وہاب کے انتخاب میں کامیاب کرانے کے لئے سندھ اسمبلی سے ایس ایل جی او 2013ء میں اچانک ترامیم کیا تھا، وزیر قانون کے قلمدان کی حیثیت سے ذاتی دلچسپی لیتے ہوئے قائم مقام گورنر سندھ اآغاسراج درانی سے ترامیم ایکٹ کی منظوری حاصل کیاتھا جس سے چیہ مگیاں شروع ہوگئی ہے کئی سوال کھڑے کردیا ہیں پیپلز پارٹی کراچی میں میئر کے انتخاب میں اپنا منظور نظر کو کامیاب کرانا چاہتی ہے، یہ قانون سابق صدر پرویز مشرف کے نافذ ہونے والے سٹی ڈسٹرکٹ گورٹمنٹ کراچی 2001ء میں نعمت اللہ خان،2005ء میں سید مصطفی کمال بھی براہ راست ووٹ کے ذریعہ کراچی کے ناظم منتخب ہوئے تھے براہ راست منتخب ہونے کا قانون میں ترامیم پیپلز پارٹی نے 2013ء میں ترامیم کرکے سٹی کونسل کے منتخب نمائندہ ئعنی یونین کونسل کے چیئرمینوں میں میئر کا انتخاب میں حصہ لینے کا اختیار دیا گیا تھا وسیم اختر کی جماعت نے 139نشستوں سے منتخب ہوئے تھے جس پروہ باآسانی میئر کراچی منتخب ہوئے تھے،پیپلز پارٹی کے امیدوار مرتضی وہاب موجود ایوان میں 173ووٹ لیکر کامیاب ہوگئے جبکہ جماعت اسلامی کے امیدوار حافظ نعیم الرحمن کو ایوان میں 160ووٹ ملے تحریک انصاف کے 32ارکان ایوان میں غیر حاضر تھے جبکہ رکن صوابائی اسمبلی (جیل)فردوس شمیسم نقوی کو لائے گے تھے انہیں نے یونسل کونسل کے چیئر مین کا حلف نہیں اٹھانے کی وجہ انتخاب میں حصہ نہیں لیا،ضلع وسطی کے پانچ ٹاونز، ضلع شرقی میں گلشن اقبال، جناح ٹاون، ضلع کورنگی میں لانڈھی، ماڈل کالونی، جماعت اسلامی کی اکثریت، صدرمومن آباد، شاہ فیصل میں تحریک انصاف،پیپلز پارٹی نے سہراب گوٹھ، صفورا گوٹھ، چینسر گوٹھ، لیاری، منگھوپیر، اورنگی ٹاون، ماڑی پور، بلدیہ موریرمیر سجر،کورنگی، گڈاپ، ملیر، ابراہیم حیدر شامل ہیں،کراچی میں 1476میں سے1460بلدیاتی نمائندے نے حف لیا ہے، جماعت اسلامی 155، تحریک انصاف کے63اور پیپلز پارٹی کے 155سمیت دیگر173نمائندہ، مسلم لیگ ن کی 14، جمعیت علماء اسلام کے 4اور تحریک لیبک پاکستان کے ایک نشست موجود ہے مجموعی طور پر367کی نشست ہے جن میں 246جنرل،81خواتین، 12غیر مسلم، 12نوجوان، 12کسان مزدور، 2معذور،2خواجہ سراشامل ہیں 10ہزار سے ذائد نمدئندہ بلدیاتی انتخاب میں کامیاب ہوئے،پہلے مراحلے میں سادہ اکثریت 184ارکان کی حمایت درکار تھی، تاہم مرتضی وہاب نے صرف 173ووٹ لیکر کامیاب ہوئے ہیں واضح رہے کہ پیپلز پارٹی نے بلدیاتی انتخاباب میں عدم دلچسپی کا انداز لگائیں فروری2010ء کے بعد ایک بلدیاتی انتخاب 2018میں ک…