کراچی (خصوصی رپورٹ /آغاخالد)
عمران خان کی پشت پر کھڑے ہوکر اہم ملکی شخصیات کونشانہ بنوانے والے 5 ریٹائر جرنیلوں کے نام سامنے آچکے ہیں،اس انکشاف میں مجھے ذاتی طور پر حقیقت اس لئے نظر آتی ہے کہ دھرنے کے دوران 2014 میں جب شام کو اسٹیج پر خان دھاڑتا تھا تو اس کے منہ سے سیاسی مخالفین کے لئے نکلنے والے توہین آمیز جملوں کا نشانہ صرف شریف خاندان ہی نہیں پوری سیاسی قیادت ہوتی تھی اور ان کے الزامات کے نہ کوئی ثبوت ہوتے تھے اور پشت پر کھڑی طاقت ور اسٹبلشمنٹ کی وجہ سے نہ ہی کسی میں جرئت تھی انہیں دنوں کراچی میں شعبہ تعمیرات کی سب سے بڑی تنظیم آباد کے سابقہ ڈان کے گھر میں بیٹھا تھا اس نے امراء کی ایک مہنگی سوسائٹی میں نیا گھر بنایا تھا اور بڑے ولاز کے لان میں کسی حسینہ کے رخساروں سے مشابہ سبز اور نرم گھاس کی خاص قسم دبئی سے منگواکر لگائی تھی اس پر وہ اکثر شام کو دوستوں کی محفلیں جماتا یا کاروباری معاملات طے کرتا تھا مجھ سے بھی اس کا محبت کا رشتہ تھا وہ اکثر مجھے بلا لیتا اور ہم گھنٹوں سیاسی موضوعات پر تبادلہ خیال کرتے رہتے وہ ان دنوں ایم کیو ایم کی محبت میں کچھ زیادہ ہی گرفتار تھا اور کراچی میں دہشت کے نام پر حکومت کرنے والے وزراء یا ان کے قائدین کی آمد جامد اس کے گھر جاری رہتی مجھے دیکھ کر ان کی اکثر بھویں سکڑ جاتیں مگر میرا میہربان میزبان اس کی پروا نہ کرتا تھا اور کبھی کبھار وہ ملازموں کی فوج ظفر موج کے ہوتے بھی خود اپنے ہاتھوں سے پائے بناتا اور پھر دیگر قریبی دوستوں سمیت مجھے بھی مدعو کرتا ایسی ہی ایک شام تھی ملک میں خان کے دھرنے کا ہر سو چرچا تھا اور میرا دوست بھی ایم کیو ایم کے زوال کے ساتھ ہی اسے طلاق دے کے خان کے سحر میں گرفتار ہوچکا تھا بڑی اسکرین پر خان کے دائیں بائیں والے گرج رہے تھے اور ایک دو کے سوا سارے چینلز اسے "قومی مفاد” میں نشر کرہے تھے خان دولہا بنا اسٹیج پر بیٹھا تھا اور سیاست میں نو آموز اپنے ساتھیوں کی مخالفین پر اچھالے کیچڑ پر خوب محظوظ ہورہا تھا ایسے میں میرے میزباں "ڈان* نے (شاید مجھے مرعوب کرنے کی خاطر) اپنے موبائل پر نیازی کو براہ راست ایس ایم ایس کیا جس کا لب لباب یہ تھا کہ "نواز شریف نے جتنی بھی موٹر ویز بنائیں اس کا مقصد عوام کی فلاح کی بجائے بھاری کمیشن کھانا تھا اور حاصل کمیشن سے اس نے فلاں فلاں ملیں لگائیں کیونکہ بین لاقوامی طے شدہ اخراجات سے فی کلو میٹر کروڑوں روپیہ زائد ان شاہراہوں پر خرچ دکھایا گیا تھا اور مجھ پر حیرت کے پہاڑ ٹوٹ پڑے جب ایک آدھ گھنٹہ بعد نیازی نے دھرنے سے خطاب شروع کیا تو اس کا ابتدائیہ موٹرویز کے سلسلہ میں بھیجے گئے میرے دوست کے میسج پر محیط کل تھا اور اس کے آدھے گھنٹے کی تقریر کا نصف سے زائد حصہ اسی ایس ایم ایس میں لگائے گئے الزامات پر مبنی تھا تقریر ختم ہوئی تو میرا دوست پھولا نہیں سمارہاتھا اور تعمیرات کی صنعت سے وابستہ کچہری میں شریک اہم شخصیات اور اعلی سرکاری افسران *ڈان” کی شان میں قصیدے پڑھ رہے تھے تب مینے ان سے سوال کیا کہ کیا بین الاقوامی ضابطوں کے تحت دنیابھر میں تعمیر کی جانے والی بڑی شاہراہوں کے بیچ وہ مسائل آتے ہیں جو ہمارے ہاں اکثرو بیشتر کھڑے کئے جاتے ہیں خصوصا زمین کی خریداری میں منہ مانگی قیمتوں کی وصولی تو سب مجھے خونخوار نظروں سے گھورنے لگے، اب اس اطلاع پر کہ پانچ ریٹائر جرنیلوں کا ایک ٹولہ خان کو بھڑکارہا تھا اور اس کی آڑ میں اپنے مذموم مقاصد کی تکمیل چاہتا تھا انہیں کے ورغلانے پر خان کا یقین محکم تھا کہ ایک منی بغاوت ہوئی چاہتی ہے جو مجھے دوبارہ تخت پر بٹھاکر خود ایک سہ ماہی چلے میں تبلیغ پر چلے جائیں گے اس خبر میں میرے لئے کچھ بھی خبریت نہ تھی البتہ جھٹکا اس وقت ضرور لگتا ہے جب اعلی تعلیم یافتہ یا اعلی دماغ لوگوں کو نیازی کے روپ میں تبدیلی اور سہانا مستقبل نظر آنے لگتاہے-