اسلام آباد(کورٹ رپورٹر )چیف جسٹس پاکستان عمر عطا بندیال نے پنجاب انتخابات اورریویو اینڈ ججمنٹ ایکٹ سےمتعلق کیس میں ریمارکس دیئے نظرثانی میں قانون کے ذریعے اپیل کا حق دینا درست نہیں، اپیل اور نظرثانی میں بہت فرق ہے، حکومت ازخود نوٹس کے فیصلوں کیخلاف اپیل کا دائرہ اختیار وسیع کرنا چاہتی ہے توموسٹ ویلکم
تفصیلات کے مطابق سپریم کورٹ میں پنجاب انتخابات اورریویو اینڈ ججمنٹ ایکٹ سےمتعلق کیس کی سماعت ہوئی، چیف جسٹس پاکستان عمر عطا بندیال کی سربراہی میں3 رکنی بینچ نے سماعت کی۔اٹارنی جنرل نے قانون کے حق میں دلائل کا آغاز کیا اور کہا میں پانچ نکات پر دلائل دونگا، مفاد عامہ کے دائرہ کار کے ارتقاء پر دلائل دونگا، پاکستان میں نظر ثانی کے دائرہ کار پر عدالت کی معاونت کروں گا ، مقننہ کے قانون سازی کے اختیارات پر معاونت کروں گا اور بھارتی سپریم کورٹ میں نظرثانی دائرہ اختیار،درخواستوں کے قابل سماعت ہونے پردلائل دوں گا۔اٹارنی جنرل کا کہنا تھا کہ 1973کےآئین میں آرٹیکل 184 تین کے اصل اختیارات کو بڑھایا گیا، آرٹیکل184 تین کے تحت پہلافیصلہ منظورالہیٰ کیس میں آیا، منظور الہٰی کے بھائیوں نے سندھ ،بلوچستان میں بھی درخواستیں دائرکیں، گرفتاری کے بعد منظور الہی کو قبائلی علاقہ میں لے جایا گیا، درخواستوں میں منظور الہیٰ نے اپنی بازیابی کی استدعا کی۔
اٹارنی جنرل نے مزید کہا کہ فیصلہ پڑھ کر بتاؤں گاگزشتہ سالوں میں184تھری کا دائرہ اختیارکیسےبڑھتاگیا، جس پر جسٹس اعجازالاحسن نے استفسار کیا یہ جاننے میں دلچسپی ہے کہ نظر ثانی کا دائرہ اختیار کیوں اور کیسے بڑھنا چاہیے؟چیف جسٹس نے اٹارنی جنرل سے مکالمے میں کہ آپ درخواست گزار کامؤقف بھی ذرا سمجھیں، درخواست گزار کو اس پر اعتراض نہیں کہ آپ نے کیوں کیا،رخواست گزار کہتے ہیں موسٹ ویلکم لیکن آئینی ترمیم سےکریں ، عدالت مانتی ہے دائرہ کار وسیع ہوں لیکن وجوہات بھی تو شامل کریں، ورنہ تو آپ عدالت کے معاملات کو ڈسٹرب ہی کریں گے۔جسٹس منیب اختر نے استفسار کیا کہ سمجھنے میں دشواری ہے کہ نظر ثانی کو دیگر فیصلوں سے فرق کیسے کیا گیا؟ میرے لیے تو سپریم کورٹ کے تمام فیصلوں کے خلاف نظر ثانی کاپیمانہ ایک ہے، آپ جو قانون لے کر آئے ہیں اس میں الگ الگ پیمانہ لائے ہیں۔چیف جسٹس پاکستان نے ریمارکس دیئے عدالتی دائرہ اختیارات کو بڑھانا غلط بات نہیں ہے،ہم مانتے ہیں وقت کیساتھ رولز بھی تبدیل ہوتے رہے ہیں، نظرثانی میں قانون کے ذریعے اپیل کا حق دینا درست نہیں ، نظرثانی رولز کو تبدیل کرنا بھی تھا توآئینی ترمیم ہونی چاہیےتھی۔جسٹس عطا عمر بندیال نے کہا کہ حکومت ازخودنوٹس کےفیصلوں کیخلاف اپیل کادائرہ اختیاروسیع کرناچاہتی ہےتوموسٹ ویلکم، آئینی ترمیم کے ذریعے اپیل کا حق دیا جاسکتا ہے، یہ حکومت کی جلد بازی میں کی گئی قانون سازی ہے، ہمیں حکومت کے اس طریقہ کار سے اتفاق نہیں، اپیل اور نظرثانی میں بہت فرق ہوتا ہے۔چیف جسٹس نے کہا کہ یہ بھی ذہن میں رکھیں نظر ثانی ،اپیل میں بنیادی فرق ہے، نظر ثانی کا دائرہ کار کیسے بڑھایا جانا چاہیے، درخواست گزاروں کا مؤقف ہے نظر ثانی دائرہ کار بڑھائیں مگراپیل میں تبدیل نہ کریں، درخواست گزاروں کو مسئلہ دائرہ کار بڑھانے کے طریقے کار سے ہے ، درخواست گزاروں کا مؤقف ہے آئینی ترمیم سے دائرہ کار بڑھایا جاسکتا ہے۔جسٹس منیب اختر کا کہنا تھا کہ سپریم کورٹ کے جتنے بھی فیصلے ہیں نظر ثانی کا پیمانہ ایک ہے، آپ جو قانون لائے اس میں اپیل کے دو درجے بنا دئیےہیں ،یہ قانون بذات خود امتیازی حیثیت رکھتا ہے، جب فیصلوں پر نظر ثانی میں سبجیکٹ میٹر ایک ہی ہےتو سکوپ الگ کیسےہوسکتاہے؟ آپ چیزوں کو کاٹ کر الگ کیسے کر سکتے ہیں؟
جسٹس منیب اختر نے مزید کہا کہ ایک کی نوعیت الگ دوسرےکی الگ؟ آخر میں کوئی بھی فیصلہ سپریم کورٹ کا فیصلہ کہلائے گا، نظر ثانی میں عدالت کےسامنے معاملہ دو فریقین کے تنازع کا نہیں ہوتا، نظر ثانی میں عدالت کے سامنے زیرغور معاملہ اپنا ہی سابقہ فیصلہ ہوتا ہے، نظر ثانی میں عدالت کے سامنے معاملہ دو فریقین کے تنازع کا نہیں ہوتا، نظر ثانی میں عدالت کے سامنے زیرغور معاملہ اپنا ہی سابقہ فیصلہ ہوتا ہے۔جسٹس منیب اختر نے ریمارکس دیئے عدالت نے مختلف ادوار میں 184(3) کے دائرہ اختیار کو مختلف اندازمیں سمجھا، امریکی سپریم کورٹ نے بھی اس کو مختلف ادوار میں الگ طرح سےپرکھا، ہوسکتاہےبعد میں یہ عدالت بھی 184(3) کےاختیار کو اور طرح سے سمجھے، ایسے میں آپ کے اس ایکٹ کا مستقبل کیا ہوگا؟بعد ازاں سپریم کورٹ نے مزید سماعت کل تک کیلئے ملتوی کردی، اٹارنی جنرل بھی دلائل جاری رکھیں گے۔