اسلام آباد (نمائندہ خصوصی ) سینٹ کی قائمہ کمیٹی نے ایک لاکھ ڈالر بیرون ملک سے بھجوانے کی ترمیم کی منظوری دیتے ہوئے فنانس بل میں 50 فیصد تک ٹیکس کی تجویز مسترد کردی۔منگل کو سینیٹر سلیم مانڈوی والا کی زیر صدارت سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے خزانہ کا اجلاس ہوا جس میں کمیٹی نے کمپنیوں کے ذریعے ٹیکس وصولی کی ترمیم کی مخالفت کردی۔ ممبر ایف بی آر پالیسی نے کہاکہ شق 85 کے نفاذ سے ٹیکس چوری کو روکا جائے گا۔ سینیٹر محسن عزیز نے کہاکہ کئی ایل سیز پاکستان سے نہیں کھل رہی ہیں اور دوبئی سے کھل رہی ہیں،پاکستان سے پیسہ ہنڈی کے ذریعے باہر جاتا ہے اور سامان باہر سے آتا ہے۔ انہوںنے کہاکہ گزشتہ سال جولائی سے یہی ہورہا ہے اور موخر ادائیگی پر کوئی سامان نہیں دیتا۔ انہوںنے کہاکہ آج جو اس طرح کا کاروبار ہورہا ہے میں اس کا مخالف رہا ہوں۔ سینیٹر سعدیہ عباسی نے کہاکہ شق 85 کا نقصان کاروبار کو ہوگا مسائل میں اضافہ ہوگا۔کمیٹی نے شق 85 میں کمشنر کی منظوری کی ترمیم کی سفارش کردی۔ فنانس بل کے مطابق شق 99 ڈی کے تحت غیر متوقع آمدنی، منافع پر 50 فیصد تک ٹیکس عائد کی کرنے تجویزہے ۔ ممبر پالیسی ایف بی آر کے مطابق یہ ٹیکس 50 فیصد تک ہے اور 5 فیصد بھی ہوسکتا ہے۔ سینیٹر سعدیہ عباسی نے کہاکہ 50 فیصد تک ٹیکس ونڈ فال منافع پر لگایا جارہا ہے پاکستان میں کونسی کمپنی پر یہ ٹیکس لگ سکتا ہے۔ ممبر ایف بی آر پالیسی نے کہاکہ 50 فیصد تک ٹیکس کا فیصلہ کابینہ کرسکتی ہے۔کمیٹی نے فنانس بل میں 50 فیصد تک ٹیکس کی تجویز مسترد کردی۔بیرون ملک سے ایک لاکھ ڈالر لانے کی اجازت کی تجویز پر غور ہے ۔ ممبر پالیسی ایف بی آر نے کہاکہ رواں مالی سال کے فنانس بل میں 50 لاکھ روپے باہر سے لانے کی اجازت تھی، نئے مالی سال کے فنانس بل باہر سے رقم لانے کی حد ایک لاکھ ڈالر رکھنے کی تجویز ہے۔ ایس ای سی پی حکام کے مطابق ایک لاکھ ڈالر موجودہ حالات میں تین کروڑ روپے بنتے ہیں۔ سینیٹر سعدیہ عباسی نے کہاکہ اس شق میں غیر وضاحتی کا لفظ استعمال کیا گیا ہے اس کو تبدیل کریں، حد کو ایک لاکھ ڈالر سے بڑھا دیں کیونکہ یہ رقم قانونی ذرائع سے آرہی ہے۔ ممبر پالیسی ایف بی آر کے مطابق اگر ایف بی آر نے تبدیلی کی تو بعد میں قانونی مسائل ہونگے۔کمیٹی نے ایک لاکھ ڈالر بیرون ملک سے بھجوانے کی ترمیم کی منظوری دیدی۔