اسلام آباد (مانیٹرنگ ڈیسک) وفاقی وزیر خزانہ اسحاق ڈار کا کہنا ہے کہ پلان بی پر پبلک میں بات نہیں ہوسکتی، پاکستان ڈیفالٹ نہیں کرےگا، پاکستان کی آبادی کی شرح الارمنگ ہے، بڑھتی آبادی ترقی کی کوششوں کو کھا جائےگی، بجٹ کو حتمی شکل دینے سے پہلے کاروباری طبقے کے تحفظات دور کریں گے۔ پوسٹ بجٹ پریس کانفرنس کرتے ہوئے وزیر خزانہ اسحاق ڈار کا کہنا تھا کہ بجٹ کے بعد تجاویز کو ڈیل کرنےکے لیے کمیٹی بنائی جارہی ہے، پرائیوٹ پبلک سیکٹرکو لےکر چلنے سے ملک کا پہیہ چلےگا، ایف بی آر کی کلیکشن 12,163 ارب روپے ہے، ایس ڈی پی میں ہیلتھ، ایجوکیشن سوشل سیکٹر اور ٹرانسپورٹ کے لیے بجٹ رکھا گیا ہے۔ اسحاق ڈار کا کہنا تھا کہ صوبوں کا ترقیاتی بجت 1559ارب روپے ہے، وفاق کا 1150ارب کا ترقیاتی بجٹ ہے، پی ایس ڈی پی پر شفاف طریقے سے عمل کیا تو نظام بہتر ہوجائےگا، پچھلی حکومت نے پبلک قرضے بڑھادیے، قرضوں کی مد میں اس بجٹ میں بھی بڑی رقم جائےگی، بجٹ کے اہداف حاصل کریں گے،گروتھ ہوگی تو ملک کا پہیہ صحیح چلےگا، آئندہ مالی سال ترقی کی شرح کو 3.5فیصد رکھا ہے، افراط زر کا ہدف 21 فیصد ہے، جی ڈی پی میں ٹیکسوں کا تناسب 8.7 فیصد ہے۔ وزیر خزانہ کا کہنا تھا کہ ہم نے یہ بجٹ روایت سے ہٹ کر بنایا ہے،گروتھ ہوگی تو ملک ترقی کرےگا، زراعت پر خصوصی توجہ دی ہے، زرعی شعبہ سب سے زیادہ اور سب سے جلد فائدہ دیتا ہے، پوری کوشش کریں گے واپس گروتھ کی طرف جانا ہے، ملک کو دوبارہ ترقی پر ڈالنا ہے، ترقیاتی بجٹ پر درست طور پر عمل ہو تو شرح نمو کا ہدف حاصل کرلیں گے، آئی ایم ایف کا خیال ہےکہ شرح نمو 4 فیصد ہو سکتی ہے، قرضوں پر سود کی ادائیگی سب سے بڑا بوجھ ہے، 4 سال میں قرض بھی دگنا ہوگیا اور شرح سود بھی 21 فیصد ہوگئی، شرح نمو بہتر ہوگئی تو روزگار کے مواقعے پیدا ہوں گے۔ ان کا کہنا تھا کہ پاکستان ایٹمی قوت ہے اب معاشی قوت بھی بننا ہے، میرے نزدیک معاشی استحکام ہو چکا، اب ہم نے شرح نمو بڑھانے کی طرف جانا ہے، زرعی قرض کے لیے 2250 ارب روپے رکھے ہیں، 50 ہزار ٹیوب ویلز کو شمسی توانائی پر منتقل کریں گے، بیجوں کی درآمد پر ڈیوٹی ختم کر رہے ہیں، ملک میں زرعی انقلاب لائیں گے۔ وزیر خزانہ نے بتایا کہ ایس ایم ایز کے لیے وزیر اعظم کی ہدایت پر اسکیم تیار کی جا رہی ہے، بزنس اور زراعت کے قرضوں کے لیے رقم مختص کی گئی ہے، آئی ٹی سیکٹر کے لیے خصوصی اکنامک زونز جلد مکمل کریں گے، زراعت کی پیداوار بڑھانے کے اقدامات سے فوڈ سکیورٹی بڑھےگی، ایگرو زرعی ایس ایم ایز کو سستے قرض فراہم کریں گے، وزیراعظم کےکسان پیکج کے بعدگندم کی پیداوار میں کافی فرق نظر آیا، زرعی ٹیوب ویلز کو سولر پر شفٹ کرنا ضروری ہے، 50 ہزار ٹیوب ویلز کو سولر پرکرنےکے لیے 30 ارب روپے رکھے ہیں۔ اسحاق ڈار کا کہنا تھا کہ سولر پاور کو سستا کرنے کے اقدامات کیے ہیں، آٹا گھی دالوں پر سبسڈی کے لیے 35ارب روپے بجٹ میں مختص کیے ہیں، آٹا گھی دالوں پر سبسڈی کی سہولت یوٹیلیٹی اسٹورز پر ہوگی، پاکستان میں یوریا کھاد کی قیمت عالمی مارکیٹ سے کم ہے، ملک میں یوریا کی مقامی پیداوار بڑھانےکے لیے اقدامات کر رہے ہیں، چھوٹے اور درمیانے درجے کی صنعتوں کو سستے قرض فراہم کریں گے، ایس ایم ایز کے لیے کریڈٹ ریٹنگ ایجنسی شروع کریں گے، ترسیلات زر بڑھانےکے لیے نئے اقدامات کریں گے۔ انہوں نے وضاحت کی کہ دودھ پر 9 فیصد ٹیکس لگانےکی بات درست نہیں، ملک میں 90 فیصدکھلا دودھ بکتا ہے، صرف تجاویز تھی کہ ڈبے کے دودھ پر ٹیکس لگایا جائے، واضح کرنا چاہوں گا دودھ پر کوئی سیلز ٹیکس نہیں لگا، سابق فاٹا اور پاٹا کے لیے مراعات میں ایک سال کی توسیع کی گئی ہے، پیٹرولیم لیوی سے 869 ارب روپے حاصل ہوں گے، ایف بی آر کا ٹیکس ہدف بھی حاصل ہو جائےگا، افراط زر اور شرح نمو سے 1800 ارب روپے حاصل ہو جائیں گے، صرف 200 ارب روپے کے نئے ٹیکس اقدامات لیے ہیں، پیٹرولیم لیوی 50 روپے فی لیٹر سے نہیں بڑھائی گئی، بینظیر انکم سپورٹ پروگرام کے لیے 450 ارب روپے رکھےگئے ہیں۔ وزیر خزانہ نے بتایا کہ 1 سے 16 گریڈ کے ملازمین کو 35 فیصد ایڈہاک ریلیف دیا گیا ہے، گریڈ 17 سے اوپر والوں کو 30 فیصد ایڈہاک ریلیف دیا گیا ہے، وفاقی دارالحکومت میں کم از کم تنخواہ 32 ہزار روپے کر دی گئی ہے، بیواو¿ں کے ہاوس بلڈنگ فنانس کارپوریشن کا قرض حکومت ادا کرےگی، 50 ہزار تک کیش نکلوانے پر سابق حکومت نے 0.6 فیصد ٹیکس ختم کیا جو کہ نہیں ختم کرنا چاہیے تھا، سالانہ 24 ہزار ڈالرز آئی ٹی ایکسپورٹرز کو سیلز ٹیکس چھوٹ دی گئی ہے، سالانہ 50 ہزار ڈالر بھیجنے والے اوورسیز پاکستانیوں کو مراعات دی جائیں گی، ان کے لیے ڈائمنڈ کارڈ کا اجرا کیا جائےگا۔ اسحاق ڈار کا کہنا تھا کہ بجٹ میں کل 1074ارب روپے کی سبسڈی رکھی ہے، اس میں 900 ارب روپے صرف پاور سیکٹر کے ہیں، آئی ایم ایف کے ساتھ بات چیت میں بڑے مسائل سبسڈی کے ہی تھے، خوردنی تیل درآمد پر سیلز ٹیکس ختم کرنےکی بات درست نہیں، انڈسٹری میں ونڈ فال منافع ہوتا ہے تو اس پر ٹیکس عائد کیا ہے، سپر ٹیکس بھی سوچ سمجھ کر لایا گیا، آزاد کشمیر حکومت کے ساتھ بجلی سبسڈی پر اتفاق ہوگیا ہے، قومی بچت پر شریعہ کے مطابق بچت اسکیم یکم جولائی سے لاگو ہوگی، 9200 ارب روپےکا ٹیکس ہدف حساب کتاب سے رکھا ہے، ٹیکس بڑھانے سے مہنگائی میں اضافہ نہیں ہوگا، کریڈٹ اور ڈیبٹ کارڈ کے ذریعے ادائیگی پر ٹیکس 5 فیصد کردیا گیا ہے۔ وزیر خزانہ کا کہنا تھا کہ 1 لاکھ ڈالر تک لانے کی ایمنسٹی اسکیم نہیں دی، اسی اسکیم کو 5 سال پرانی سطح پر لےکر آئے ہیں،کچھ لوگوں نےکہا ہم نے زیادہ سبسڈی دے دی ہے، پلان بی پر پبلک میں بات نہیں ہوسکتی، پاکستان ڈیفالٹ نہیں کرےگا، اپنے پاو¿ں پر کھڑے ہونےکے لیے پلان بی ہوتا ہے، ڈیفالٹ کی رٹ لگانے والے خود ذمہ دار ہیں، ائیر پورٹس کو آوٹ سورس کرنے پرکام کر رہے ہیں، بجلی کے سیکٹر میں فوری اصلاحات کی اشد ضرورت ہے، کم سے کم اجرت پر عمل نہ کرنے والے اداروں کی شکایات حکومت کو بھیجیں کارروائی کریں گے، بجٹ کو حتمی شکل دینے سے پہلے کاروباری طبقے کے تحفظات دور کریں گے تحفظات دور کرنے کے لیے ایف بی آر کی 2 کمٹیاں بنارہے ہیں، بجلی کا ٹیرف اوسط بنیاد پر ہونا چاہیے، نجکاری پروگرام میں ڈسکوز کو دیکھا جا رہا ہے، ائیر پورٹس کی نجکاری کے لیےکام جاری ہے، جولائی میں پہلے ائیر پورٹ کی آوٹ سورسنگ کا اشتہار دینےکا ارادہ ہے، یورپین یونین جی ایس پی پلس میں توسیع دے گا۔ ان کا کہنا تھا کہ پاکستان کی آبادی کی شرح الارمنگ ہے، بڑھتی آبادی ترقی کی کوششوں کو کھا جائے گی، آبادی کی شرح 3.6 فیصد پہنچنے پر شدید تحفظات ہیں، آبادی کو کنٹرول کرنے کے لیے کافی اجلاس ہو رہے ہیں، ہم علماءسے مل کر آبادی کے مسئلے کا حل نکالنےکی کوشش کر رہے ہیں، ملک میں غذائی قلت میں کمی کے لیے حکومت اقدامات کرےگی، بچوں کے اسکول میں داخلے کے لیے صوبائی حکومتوں کو اقدامات کرنا ہوں گے،کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ مردم شماری کے نمبرز کچھ زیادہ رپورٹ ہوئے، حکومت اس پر سنجیدگی سے غور کر رہی ہے، دفاعی بجٹ ایک حقیقت پسندانہ بجٹ ہے، دفاعی بجٹ جی ڈی پی کا 1.7فیصد ہے۔ ایک سوال کے جواب میں ان کا کہنا تھا کہ کارپوریشن کے ملازمین کی پنشن کی ذمہ داری وفاقی حکومت کی نہیں، جنرل الیکشن میں ایک سال توسیع کی کا کوئی بیان حکومت نے نہیں دیا، قرض کی وقت پر ادائیگی کی جائےگی، آپ ٹھکیدار لائیں جو 12 ہزار ارب روپے کا ٹیکس اکھٹا کر دے، ہم ایف بی آر کی جگہ ان کو ٹیکس جمع کرنے کا ٹھیکہ دے دیں گے اور ایف بی آر کو چھٹی پر بھیج دیں گے۔