کراچی ( نمائندہ خصوصی) سندھ حکومت نے مالی سال 2023-24کے لیے 2247 ارب روپے کا بجٹ پیش کردیا جس میں 37 ارب 79 کروڑ روپے خسارہ ہے، تنخواہوں میں 35 فیصد تک اور پنشن میں 17 فیصد اضافہ کیا گیا ہے۔کہ مالی سال 23-2022 کے لیے ترقیاتی اخراجات کا نظرثانی شدہ تخمینہ 406.322 ارب روپے ہے، صوبائی اے ڈی پی کے لیے 226 ارب روپے اور ضلعی اے ڈی پی کے لیے 20 ارب روپے مختص کیے گئے ہیں ۔، آئندہ سال کے بجٹ میں شعبہ تعلیم کے ترقیاتی منصوبوں کے لیے 34.69 ارب روپے مختص کیے گئے۔ شعبہ صحت کی ترقیاتی اسکیموں کے لیے 19.739 ارب روپے مختص کیے گئے ہیں ۔بجٹ میں صوبائی سالانہ ترقیاتی پروگرام کے تحت 87 ارب روپے سیلاب کی بحالی کے لیے دیے گئے ہیں ۔وزیراعلی سندھ مراد علی شاہ نے ہفتہ کو اپنی حکومت کا 5واں اور سندھ اسمبلی میں 59واں بجٹ پیش کیا، انہوں نے اپنی بجٹ تقریر میں کہا کہ سندھ نے گزشتہ سالوں میں سیلاب اور کوویڈ جیسے مسائل کا سامنا کیا ہے، 1652 نئی اسکیموں کیلئے 79.019 ارب روپے کا تخمینہ لگایا گیا ہے، جاری منصوبوں کیلئے 253.146 ارب روپے رکھے گئے ہیں۔انہوں نے کہاکہ صوبائی اے ڈی پی کے بجٹ میں 4 ہزار 158 منصوبے شامل ہیں، پی ایس ڈی پی منصوبوں کیلئے 12.5 ارب روپے، بیرونی معاونت کے منصوبوں کیلئے 147.822 ارب روپے، صوبائی اے ڈی پی کیلئے 226 ارب، ضلعی اے ڈی پی کیلئے 20 ارب روپے رکھے گئے ہیں اور ترقیاتی اخراجات کا نظرثانی شدہ تخمینہ 406.322 ارب روپے لگایا گیا ہے۔وزیر اعلی و وزیر خزانہ سندھ نے بتایا کہ آئندہ مالی سال کیلئے ترقیاتی اخراجات کی مد میں 689.603 ارب روپے تجویز کیا گیا ہے، صوبائی اے ڈی پی کیلئے 380.5 ارب روپے، ضلعی اے ڈی پی کیلئے 30 ارب روپے بیرونی معاونت کے منصوبوں کیلئے 266.691 ارب اور وفاقی پی ایس ڈی پی کیلئے 22.412 ارب روپے تجویز کئے گئے ہیں۔انہوں نے کہا کہ مالی سال 24-2023 کیلئے 88.273 ارب کے 1937 نئے منصوبے شامل ہیں، ہماری توجہ جاری اسکیموں کی تکمیل پر ہے جس کیلئے بجٹ کا 80 فیصد مختص کیا گیا ہے، شعبہ تعلیم کے ترقیاتی منصوبوں کیلئے 34.69 ارب روپے، شعبہ صحت کی ترقیاتی اسکیموں کیلئے 19.739 ارب روپے، محکمہ داخلہ کے ترقیاتی منصوبوں کیلئے 11.517 ارب روپے اور شعبہ آبپاشی میں ترقیاتی منصوبوں کیلئے 25 ارب روپے تجویز کئے گئے ہیں۔مراد علی شاہ نے بتایا کہ بلدیات، ہاﺅسنگ اینڈ ٹاﺅن پلاننگ کے تحت منصوبوں کیلئے 62.5 ارب روپے، پبلک ہیلتھ انجینئرنگ، دیہی ترقی کے منصوبوں کیلئے 24.35 ارب روپے اور ورکس اینڈ سروسز کے تحت سرکاری عمارات اور سڑکوں کیلئے ترقیاتی اخراجات کیلئے 89.05 ارب روپے میسر ہوں گے۔وزیر اعلیٰ سندھ نے بجٹ تقریر میں بتایا کہ قدرتی آفات، سیلاب کے باعث 100 ارب روپے کا اضافی بوجھ پڑا ہے، صوبائی سالانہ ترقیاتی پروگرام کے تحت 87 ارب روپے سیلاب کی بحالی کیلئے دیئے گئے، سیلاب متاثرین کیلئے گھروں کی تعمیرات کو پورا کرنے کیلئے بڑا مالیاتی خلا موجود ہے، جنیوا کانفرنس کے بعد سندھ حکومت نے کراچی میں سیلاب متاثرین کی بحالی پر کانفرنس کا انعقاد کیا تھا، سندھ ڈونر کانفرنس میں سرمایہ کاروں کو انفرا اسٹرکچر کی بحالی کیلئے سرمایہ کاری کرنے کی ترغیب دی گئی۔انہوں نے کہا کہ ورلڈ بینک اور دیگر کے مطابق 4.4 ملین ایکڑ زرعی زمین تباہ ہوگئی، 117.3 ملین ڈالر کے 4 لاکھ 36 لاکھ 435 مویشی سیلاب کی نظر ہوگئے، صوبے کا 60 فیصد سڑکوں کا نیٹ ورک شدید متاثر ہوا۔مراد علی شاہ نے کہاکہ آئندہ مالی سال کیلئے صوبائی ترقیاتی اخراجات 5 ہزار 248 منصوبوں پر مشتمل ہے، تین ہزار 311 جاری منصوبوں کی مد میں 291.727 ارب روپے رکھے گئے ہیں جبکہ 1937 نئے منصوبوں کیلئے بھی 88.273 ارب روپے مختص کئے گئے ہیں، ہماری توجہ جاری اسکیموں کی تکمیل پر ہے جس کیلئے بجٹ کا 80 فیصد مختص کیا گیا ہے۔انہوں نے کہا کہ صوبائی ٹیکس وصولی وفاقی منتقلی اور صوبائی محصولات کا مجموعہ ہیں، ہمارے وسائل کا بڑا حصہ سندھ وفاقی منتقلی پر بہت زیادہ انحصار کرتا ہے، این ایف سی کی مد میں براہ راست منتقلی صوبوں سے شیئرنگ فارمولے کے تحت تقسیم کی جاتی ہیں۔وزیراعلی سندھ نے بتایا کہ آئندہ مالی سال تعلیم کے شعبے میں 312.245 ارب روپے مختص کئے ہیں، جو گزشتہ سال کے مقابلے میں 7 فیصد زائد ہے، رواں سال محکمہ تعلیم ایک بھرتیوں کا سال رہا ہے، آئی بی اے کے تحت 58 ہزار پرائمری و مڈل اسکول ٹیچرز بھرتی کئے گئے، تمام اساتذہ کو تعیناتی سے قبل تربیت، شرح کی پالیسی کے تحت اسکولوں میں مقرر کیا گیا، شعبہ تعلیم کو مزید مضبوط بنانے کیلئے 2 ہزار 582 اساتذہ کی آسامیاں پیدا کی گئیں۔انہوں نے کہاکہ نئے بھرتی کئے گئے اساتذہ کو گریڈ 9 سے 14 میں اپ گریڈ کیا جائے گا، 27 پرائمری اسکولوں کو مڈل اسکول اور مڈل اسکولوں کو سیکنڈری اسکول کا درجہ دیا گیا، 150 اسکولوں کو ہائر سیکنڈری اسکولوں میں اپ گریڈ کیا جائے گا، 846 ملین روپے کی لاگت سے 892 نئی ملازمتوں کی منظوری دی جائے گی۔انہوںنے کہاکہ گریڈ ایک سے 16 تک کے ملازمین کی تنخواہوں میں 35 فیصد اور 17 سے 22 گریڈ کے سرکاری افسران کی تنخواہوں میں 30 فیصد اضافے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔انہوں نے کہاکہ معاشی استحکام کی جانب گامزن کرنے کے لیے پرعزم ہیں، ہم موسمیاتی تبدیلی کے چیلنجز سے نبردآزما ہونے کے لیے اقدامات کررہے ہیں۔وزیر اعلی سندھ نے بتایا کہ حکومت سندھ نے عالمی بینک سے 5 منصوبوں کے لیے تقریبا 1.7 ارب ڈالر حاصل ہے، اسی طرح 20 کروڑ ڈالر ایشیائی ترقیاتی بینک سے سیکیور کیے، میں اس حوالے سے مزید بات کروں گا۔انہوں نے کہاکہ ترقی کرنے کے لیے استحکام بہت ضروری ہے، سندھ میں گزشتہ 5 سال میں استحکام برقرار رہا، وفاق میں 5 سالوں میں 6 وزرائے خزانے میں بجٹ پیش کیے جبکہ میں آج مسلسل پانچواں بجٹ پیش کررہا ہوں، ہم سندھ میں استحکام لا چکے ہیں، انشا اللہ وفاق میں بھی استحکام لائیں گے۔مراد علی شاہ نے بتایا کہ وفاقی حکومت کی جانب سے آئی ایم ایف سے بیل آٹ پیکیج حاصل کرنے کو یقین بنانے کے لیے سندھ نے رواں مالی سال 23-2022 کے بجٹ میں 188 روپے کا کیش سرپلس برقرار رکھا۔انہوں نے کہاکہ ہم نے اس بات کو یقینی بنایا کہ ایک ایک روپیہ خرچ کرکے زیادہ سے زیادہ فائدہ اٹھایا جائے۔وزیراعلی سندھ نے کہا کہ صوبائی حکومت کے نظر ثانی شدہ اخراجات برائے 23-2022 کے 17.6 کھرب روپے ہیں جبکہ بجٹ میں اس کا تخمینہ 17.1 کھرب روپے لگایا گیا تھا۔رواں مالی سال کے نظرثانی شدہ جاری اخراجات 12.9 کھرب روپے رہے، یہ 11.1 کھرب روپے کے بجٹ تخمینے سے 8 فیصد زیادہ ہیں۔مراد علی شاہ نے کہاکہ 23-2022 کے لیے جاری کیپٹل اخراجات کا نظر ثانہ شدہ تخمینہ 62.13 ارب روپے لگایا گیا ہے۔وزیر اعلی سندھ نے بتایا کہ رواں مالی سال میں نظر ثانی شدہ ترقیاتی اخراجات 406 ارب کے ہوں گے، باجود چیلنجز کے یہ سب سے زیادہ ترقیاتی اخراجات ہوں گے۔انہوں نے کہاکہ رواں مالی سال کے اختتام تک ہمیں وفاق سے 10.8کھرب روپے ملنے کی توقع ہے۔وزیر اعلی سندھ نے کہاکہ جہاں تک ہمارے اپنے وسائل کا تعلق ہے، ہمیں 358.2 ارب روپے کی آمدنی کا نظرثانی شدہ تخمینہ لگایا ہے جبکہ بجٹ میں اس کا 374 ارب روپے حاصل کرنے کا اندازہ لگایا گیا تھا۔انہوں نے بتایا کہ سندھ ریونیو بورڈ 180 ارب روپے کا ہدف رواں مالی سال کے اختتام تک حاصل کرے گا۔مراد علی شاہ کے مطابق منصوبوں میں غیر ملکی معاونت کا نظرثانی شدہ تخمینہ 147.82 ارب روپے کا لگایا گیا ہے جبکہ وفاقی پبلک سیکٹر ڈیولپمنٹ پروگرام سے 14 ارب روپے ملنے کا تخمینہ لگایا گیا۔