اسلام آباد( نمائندہ خصوصی)سینٹر فار ایرو سپیس اینڈ سکیورٹی اسٹڈیز CASS اسلام آباد نے "جامع قومی سلامتی میں نئی اور ابھرتی ہوئی ٹیکنالوجیز کے کردار” کے موضوع پر ایک کامیاب سمینار کا انعقاد کیا۔ تقریب میں قومی ماہرین اور پالیسی سازوں کو یکجا کرکے موقع فراہم کیا کہ وہ ٹیکنالوجیز کے ارتقاء کے تناظر میں قومی سلامتی پر ہونے والے اثرات پر روشنی ڈالیں۔اپنے کلیدی نوٹ میں لفٹیننٹ جنرل (ریٹائرڈ) خالد قدوائی, نیشنل کمانڈ اتھارٹی کے مشیر اور سابق ڈائریکٹر جنرل سٹریٹیجک پلانز ڈویژن (SPD)، نے بروقت اس موضوع پر غور و خوض کا اہتمام کرنے کی کاوش پر CASS کو سراہا۔ ان کا کہنا تھا کہ ان ٹیکنالوجیز کے قومی سلامتی پر دور رس اثرات ہو سکتے ہیں۔ اور یہ ضروری ہے کہ اس بات پر غور کیا جائے کہ یہ ٹیکنالوجیز کتنی قابل بھروسہ ہیں، ان کی معیاد کیا ہوگی اور انکے تضویراتی اثرات کیا ہوسکتے ہیں۔ انہوں نے اس بات پر زور دیا کہ سیاسی استحکام، مضبوط معیشت اور معاشرتی ہم آہنگی کے بغیر جامع قومی سلامتی ممکن نہیں۔ڈائریکٹر سنٹر فار سیکورٹی، سٹریٹجی اینڈ ریسرچ، یونیورسٹی آف لاہور، پروفیسر ڈاکٹر رابعہ اختر نے ان ٹیکنالوجیز کے روایتی سکیورٹی کے ساتھ تعلق پر روشنی ڈالی اور اس بات پر زور دیا کہ پاکستان کو اس شعبے میں سرمایہ کاری کرنی چاہیے تاکہ قومی سلامتی کو مستحکم کیا جا سکے۔ انہوں نے اس پہلو پر بھی زور دیا کے ایسا نظام موضوع کیا جائے جو پاکستانیوں کے ڈیٹا کی رازداری اور شہری آزادی کو یقینی بنا سکے۔مس آمنہ رفیق، ریسرچ ایسوسی ایٹ انسٹی ٹیوٹ آف سٹریٹیجک سٹڈیز اسلام آباد، نے ان ٹیکنالوجیز کے تعمیری کردار کا جائزہ لیا۔ ان کا کہنا تھا کہ یہ ٹیکنالوجیز غربت کے سدّباب، منڈیوں تک رسائی، زرعی امور، صحت، تعلیم اور جنسی برابری جیسے شعبوں میں اہم کردار ادا کرسکتی ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ اقوام متحدہ کے پائیدار ترقی کے اہداف کی تکمیل میں بھی یہ ایک معاون کردار ادا کر سکتی ہیں۔پاکستان اٹامک انرجی کمیشن کے سابق مشیر، ڈاکٹر سید عارف احمد کا کہنا تھا تھا کہ مصنوعی ذہانت (Artificial Intelligence) کے تخریبی استعمال کو روکنا ایک بڑا چیلنج ہے۔ مستقبل میں درپیش مسائل سے نمٹنے کے لیے ضروری ہے کہ پاکستان مصنوعی ذہانت کے استعمال پر واقفیت اور بعد میں مہارت حاصل کرے۔ اس ضمن میں یہ ضروری ہے کہ ہم نئ ٹیکنالوجیز اپنائیں۔ائیر کموڈور خالد بنوری، سابق ڈائریکٹر جنرل آرمز کنٹرول اینڈ ڈس آرمامنٹ افیئرز برانچ، اسٹریٹجک پلانز ڈویژن، نے سماجی ہم آہنگی کی اہمیت پر زور دیا اور اس کے حصول میں درپیش چیلنجز کا اعتراف کیا۔ انہوں نے کہا کہ سماجی ہم آہنگی ایک پیچیدہ مقصد ہے اور آسانی سے حاصل نہیں کیا جا سکتا، کیونکہ اس کے لیے متنوع تناظر اور پس منظر کے ساتھ ساتھ رہنے کے لیے سیکھنے کی ضرورت ہے۔ بگ ڈیٹا (Big Data) کے حوالے سے، ایئر کموڈور بنوری نے تین اہم پہلوؤں کی نشاندہی کی: رسائی، تجزیہ اور استعمال۔ انہوں نے نوٹ کیا کہ پاکستان کے لیے ان میں سے ہر ایک شعبے میں چیلنجز موجودہ ہیں، جیسے کہ ڈیٹا کا باقاعدہ انضمام نہ ہونا، جس کے نتیجے میں معلومات بکھری ہوئی ہیں۔ مزید برآں، انہوں نے اس بات پر زور دیا کہ الگورتھم اور مصنوعی ذہانت کا انضمام انفرادی اور سماجی دونوں سطحوں پر تیز اور موثر فیصلہ سازی کی سہولت فراہم کر سکتا ہے۔ایئر مارشل اشفاق آرائیں (ریٹائرڈ)، ایڈوائزر چیف آف دی ایئر سٹاف برائے CASS افیئرز اور ڈائریکٹر ایمرجنگ ٹیکنالوجیز، CASS، اسلام آباد نے سیمینار کے دوران قومی سلامتی کی تبدیلی پر روشنی ڈالی۔ انکا کہنا تھا کہ روائتی طور پر قومی سلامتی کو صرف بیرونی سیکورٹی یا فوجی تناظر میں دیکھا جاتا تھا جبکہ جامع قومی سلامتی میں ریاست کے ساتھ ساتھ انسانی سلامتی اور غیر روایتی سلامتی بھی یکساں اھمیت کے حامل ہیں۔اپنے اختتامی کلمات میں، ایئر مارشل فرحت حسین خان (ریٹائرڈ)، پریزیڈنٹ CASS، اسلام آباد نے اس بات پر روشنی ڈالی کہ مصنوئی ذہانت نے فیصلہ سازی کے وقت میں نمایاں کمی کی ہے، جس سے تاخیر یا ہچکچاہٹ کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔ انہوں نے تسلیم کیا کہ مصنوئی ذہانت اور سائبر صلاحیتوں میں تیزی سے ترقی مستقبل کی جنگوں میں اہم کردار ادا کرے گی۔ انہوں نے ترقی کے لیے سیاسی استحکام کی ضرورت پر زور دیتے ہوئے کہا کہ عوام کے تحفظ اور فلاح و بہبود کو یقینی بنائے بغیر حقیقی جامع سلامتی حاصل نہیں کی جا سکتی۔