کراچی (رپورٹ۔اسلم شاہ)کراچی واٹر اینڈ سیوریج بورڈ کے چیف ایگزیکٹو آفیسر و مینجنگ ڈائریکٹر سید صلاح الدین نے ان ٹاٹئیل نہ ہونے کے باوجود سرکاری رہائشی آفس کو کیمپ آفس قرار دیتے ہوئے غیر قانونی طور پر سرکاری رہائش اختیار کرلی۔ یہ بنگلہ سابق چیف انجینئر نے بھاری نذرانہ دیکر حاصل کیا تھا جسے زبردستی خالی کرایا گیا ہے۔چیف آپریشن آفیسر نے بھی چیف انجینئر کے نام پر سرکاری بنگلہ میں رہائش پذیر ہیں۔ ادارے کی 33 کالونیوں کی سرکاری رہائش گاہ کی واضح پالیسی نہ ہونے کی وجہ سے لاکھوں روپے میں خرید و فروخت عروج پر ہے۔دو ماہ بعد ریٹائرڈ ہونے والے ڈپٹی مینجنگ ڈائریکٹر نے مسلم آباد کا بنگلہ 64 لاکھ روپے میں فروخت کر دیا۔ایگز یکٹو انجینئر نے اپنا بنگلہ 60 لاکھ روپے میں فروخت کیا جبکہ بعض افسران و ملازمین نے اپنی رہائش گاہیں رشتہ داروں کو کرایہ پر دے رکھی ہیں۔ان سرکاری رہائش گاہوں میں بڑی تعداد میں ریٹائرڈ ملازمین غیر قانونی رہائش پذیر ہیں۔344 سے زائد سرکاری رہائش گاہوں پر غیر قانونی طور پر آباد ہونے والوں سے خالی کرانے کے لئے ادارے نے ایک کمیٹی سیکریٹری بورڈ کی نگرانی میں قائم کردی ہے جس میں ڈائریکٹر ایڈمنسٹریشن، ڈائریکٹر لیگل آفیئر کے ساتھ متعلقہ کالونی کے ایگزیکٹو انجینئر بھی شامل ہوں گے۔ان کو 29 جون 2023 تک رپورٹ مرتب کرنے کی ہدایت کی گئی ہے۔ یہ حکمنامہ سندھ ہائی کورٹ کے 2020ء کے حکمنامہ کی ہدایت کی روشنی میں جاری کیا گیا ہے۔ذرائع کے مطابق سی او ڈی ہلز کی بنگلہ نمبر C-1 کو چیف ایگزیکٹو آفیسر کے کیمپ آفس کے طور پر الاٹ کردیا گیا ہے۔ اس میں سابق چیف انجینئر عبدالقادر بلوچ رہائش پذیر تھے جبکہ ڈائریکٹر ٹیکس غفار قریشی کے نام پر الاٹمنٹ بھی منسوخ کردی گئی ہے اور انہیں فوری خالی کرنے کی ہدایت کی گئی ہے۔سی او ڈی ہلز کا تیسرے بنگلہ میں گریڈ 19 کے چیف انجینئر سعید شیخ رہائش پڈیر ہیں۔ تینوں بنگلے سمیت دیگر مکانات میں بجلی، پانی و دیگر میٹرز نکال دیئے گئے ہیں یعنی بجلی،مفت پانی مفت سمیت دیگر سہولیات بھی مفت حاصل ہو گئی ہیں۔ تین سال قبل سندھ ہائی کورٹ کے جسٹس شفیع احمد کی عدالت میں D-5767/2019 کیس،کراچی واٹر اینڈ سیوریج بورڈ کی 33 کالونیوں میں 344 سے زائد سرکاری رہائش گاہ پر غیر قانونی طور پر آباد لوگوں کے خلاف کاروائی نہ کرنے کا نوٹس لیتے ہوئے فوری عدالتی حکم پر عملدرآمد کرانے کا حکم دیا گیا لیکن اس پر عملدرآمد نہ ہوسکا۔سرکاری رہائش گاہ میں ذیادہ تر دھابے جی، گھارو، پیپری، حب کنال سمیت دیگر مقامات پر قابضین کی بڑی تعداد موجود ہے۔ KWSB کی سرکاری رہائش گاہ پر قبضہ کرنے والوں میں مسلم لیگ ن کراچی کے سابق صدر و لیبرونگ سندھ کے صدر منور رضا، پیپلز پارٹی کے پیپلز لیبر یونین کے جنرل سیکریٹری محسن رضا،سمیت دیگر سیاسی جماعتوں اور لیبر تنظمیوں کے نمائندوں کی بڑی تعداد کے نام شامل ہیں۔ دھابے جی،گھارو اور پیپری کی سرکاری زمین پر دو سو سے زائد محکمہ تعلیم،جنگلات، پولیس اوردیگر محکموں کے ملازمین بھی قبضہ کرنے والوں میں شامل ہیں۔ سرکاری زمین، رہائش گاہ مفت، بجلی، گیس،پانی کے ساتھ ساتھ دیگر سہولیات مفت استعمال کر رہے ہیں ان میں بعض ادارے کے ریٹائرڈ افسران و ملازمین بھی شامل ہیں۔ میٹر ڈویژن کے ایگزیکٹو انجینئر ندیم کرمانی نے بھی اپنے سرکاری رہائشگاہ رشتہ داروں کو دے دی ہے۔وہ خود اسکیم 33 میں ایک سوسائٹی میں ذاتی بنگلہ میں شفٹ ہوچکے ہیں۔ ان گھروں کا نہ اجازت نامہ جاری کیا گیا اور نہ ہی اس کو کسی مجاز اتھارٹی نے الاٹمنٹ کرنے کا باقاعدہ حکمنامہ جاری کیا ہے۔ ان گھروں کو سندھ ہائی کورٹ نے فوری خالی کرنے کا حکمنامہ جاری کیا ہے۔100 کے لگ بھگ ملازمین نے دکانیں، کیبن، درجنوں بھینسوں کے باڑے،دو منزلہ مکانات سمیت تجارتی مراکز، شاپنگ سینٹر،ہوٹل اور دیگر سرگرمیوں کے لئے سیکڑوں پلاٹس پر قبضہ کیا جاچکا ہے، مفت رہائشی گاہ کے ساتھ مفت بجلی،پانی اوردیگر سہولیات بھی میسر ہیں۔ گریڈ 2 سے گریڈ 20 تک کے 14سے زائد افسران و ملازمین کو سرکاری رہائش فراہم کی گئی ہے جبکہ تین درجن سے زائد ملازمت سے ریٹائرڈ ملازمین نے گھر خالی کرنے سے انکار کرتے ہوئے زبردستی قبضہ کر رکھا ہے۔ کئی صحافی بھی واٹر بورڈ کالونی میں غیر قانونی طور پر رہائش پذیر ہیں۔23 ڈملوٹی، 13حب پمپنگ اولڈ کانونی،114نیو فلٹر پلانٹ کالونی،61 فلٹر پلانٹ این ای کے کالونی،12پمپنگ اسٹیشن این ای کے کالونی،69پمپنگ اسیٹشن این ای کے K-2 کالونی،120 گھارو سب ڈویژن فلٹر پلانٹ کالونی،25 پمپ ہاوس کالونی گھارو، 138دھابے جی پمپ ہاوس کالونی، ایک گھر کلفٹن باتھ آئی لینڈ، لائنز ایریا پمپ اسٹیشن،الزم اسکوائر اسکیم نمبر 16کالونی، 13سائفن نمبر 20اسٹاف کاولنی، KWSBاسٹاف کالونی پوش،42پمپنگ اسٹیشن ڈفرٹ آر کالونی، 63گھروں KMC/KDAکالونیز میں غیر قانونی آباد ہیں،KMC/KDA کا ملازم بھی رہائش پذیر ہے، نائن مائلز میں 58،سی او ڈی فلٹر پلانٹس میں 104، نارتھ ناظم آباد سخی حسن میں 30اور تین پلاٹس پر غیر قانونی قبضہ ہے،30ایچ ایس آر کالونی، 98ایل ایس آر کالونی گلشن اقبال،33محمودآباد اور ایک درجن گھروں پر غیر قانونی قبضہ کر رکھا ہے۔ 19ٹیمپل کری ریزر وائر کالونی اور 5 پر قبضہ ہے۔ 59 ٹی پی ٹو شیر شاہ اور ایک درجن غیر قانونی آباد ہیں۔ 53 ٹی پی ٹو محمودآباد اور غیر قانونی آباد کی تعداد سیکٹروں میں پہنچ چکی ہے۔ 15گھروں میں یونیورسٹی ریزروائر کالونی میں موجود ہے۔کئی ایک غیر قانونی آباد تھے جن کو KDA کی ان فورس نے غیر قانونی قراردیتے ہوئے گرا دیا تھا۔ 106نیو اسٹاف فلٹر کالونی پیپری،گلشن اقبال بلاک 6میں ایک گھر ہے گڈنی ہلز میں رہائش گاہیں گرادی گئی ہیں،پاپوش نگر، پیپری اسٹاف کالونی،ڈملوٹی سمیت ان کالونیوں میں 1434 افسران و ملازمین کے ساتھ کئی درجن ریٹائرڈ ملازمین رہائش پذیر ہیں۔ اس دھند ے سے متعلقہ افسران کروڑوں کے اثاثے بنا چکے ہیں،ادارے میں کاروائی کے بجائے کمیٹیاں پر کمیٹیاں تشکیل دے کر معاملہ لٹکادیا جاتا ہے تاکہ کرپشن کے دروازے کھلے رہیں۔
ذرائع کا کہنا ہے کہ سی ای او اور سی او او کی تقرری کے معاہدے میں سرکاری رہائش گاہ کی سہولیات موجود نہیں ہے،جبکہ ایک افسر نے بتایا ہے کہ گرمی کی شدت میں اضافہ کے ساتھ پانی کے بحران کی وجہ سے شہر میں ہنگامہ اور واٹربورڈ کے دفاتر پر حملہ کے پیش نظر ریڈ الرٹ جاری کیا گیا ہے کہ سی ای او پر حملہ ہوسکتا ہے اس لیئے حفاظتی انتظام کے پیش نظر انہیں کیمپ آفس منتقل ہونے کی سفارش کی گئی ہے۔اسی کی آڑ میں انہیں کیمپ آفس منتقل کیا گیا ہے۔