لاہور (نمائندہ خصوصی) جمعیت علمائے اسلام (ف) اور پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ (پی ڈی ایم) کے سربراہ مولانا فضل الرحمن نے کہا ہے کہ عمران خان سے کسی قسم کی کوئی بات نہیں ہو سکتی،9 مئی کے احتجاج کے دوران ریاستی اداروں پر حملہ کیا، جی ایچ کیو اور کور کمانڈر ہاﺅس پر حملہ ہوگا تو آرمی ایکٹ حرکت میں آئے گا،پی ڈی ایم انتخابی اتحاد نہیں ، انتخابی اتحاد میں ہم زیادہ سے زیادہ علاقائی اور ضلعی سطح پر اتحاد کر سکتے ہیں،موجودہ صورتحال میں کچھ امید پیدا ہوگئی ہے کہ ملک کے حالات بہتری کی جانب جارہے ہیں۔ن خیالات کا اظہار انہوں نے لاہور میں مسلم لیگ (ن) کے سینئر رہنما و وفاقی وزیر سردار ایاز صادق کی رہائش گاہ جا کر انکے بھائی کے انتقال پر اظہار تعزیت کے بعد میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کیا ۔ مولانا فضل الرحمن نے کہا کہ عدلیہ کے جانبداری کا مظاہرہ کرنے پر ہم عوامی عدالت میں گئے، ہم نے اسلام آباد میں ریلی نکالی، بڑی تعداد میں لوگ آئے اور عدلیہ کے حوالے سے تشویش کا اظہار کیا، ہم عدلیہ کے خیرخواہ ہیں، بدخواہ نہیں ہیں لیکن جمہوریت میں یہی ہوتا ہے کہ ملک کے کسی ادارے کی کارکردگی پر عوام کو اعتراض ہوتا ہے تو وہ اپنی رائے دیتے ہیں جس کا احترام کیا جانا چاہیے۔انہوں نے کہا کہ مہنگائی کے خلاف ٹی ایل پی، (ن) لیگ اور پیپلزپارٹی نے بھی لانگ مارچ کئے لیکن ایک گملہ تک نہیں ٹوٹا ۔پی ٹی آئی نے 9مئی کے احتجاج کے دوران ریاستی اداروں پر حملہ کیا، جی ایچ کیو اور کور کمانڈر ہاﺅس پر حملہ ہوگا تو آرمی ایکٹ حرکت میں آئے گا، یہ ایک نئی صورتحال سے جس کو ماضی کے کسی واقعے سے نہیں جوڑا جاسکتا، آرمی ایکٹ باقاعدہ قانون کا حصہ ہے اور اس کے خلاف اپیل بھی کی جاسکتی ہے۔الیکشن کی تاریخ سے متعلق سوال کے جواب میں مولانا فضل الرحمن نے کہا کہ ہم نے ہمیشہ اتفاق رائے سے متفقہ فیصلہ کیا ہے، الیکشن کے حوالے سے بھی ہم متفقہ فیصلہ ہی کریں گے۔انہوں نے کہا کہ پی ڈی ایم انتخابی اتحاد نہیں ہے، انتخابی اتحاد میں ہم زیادہ سے زیادہ علاقائی اور ضلعی سطح پر اتحاد کر سکتے ہیں، ہمارا ایسا تعلق قائم ہوچکا ہے کہ تمام صوبوں میں انتخابی ایجسٹمنٹ ہمارے لیے آسان ہوگی لیکن بہرحال ہر پارٹی کا اپنا اپنا منشور ہے۔مہنگائی سے متعلق سوال کے جواب میں مولانا فضل الرحمن نے کہا کہ میں نے عمران خان کے دورِ حکومت میں ہی یہ بات کی تھی کہ ملکی معیشت اس حد تک گر چکی ہے کہ نئی حکومت کے لیے اسے اٹھانا ممکن نہ ہوگا، موجودہ حکومت کے اقتدار سنبھالنے کے بعد میری تجویز یہی تھی کہ ہمیں فوراً الیکشن کی جانب جانا چاہیے لیکن ساتھیوں کا یہ خیال تھا کہ ہم نے معاملات اپنے ہاتھ میں لے لیے ہیں تو ذمہ داری کو ذمہ داری سمجھنا چاہیے۔انہوں نے کہا کہ اب عوام کو بھی یہ سمجھ آگیا ہے کہ ملک کو اس دلدل میں کس نے دھکیلا اور اس سے نکلنے میں کتنی دقت سامنے آرہی ہے، ہمارے اندازے درست ثابت ہورہے ہیں، موجودہ صورتحال میں کچھ امید پیدا ہوگئی ہے کہ ملک کے حالات بہتری کی جانب جارہے ہیں۔عمران خان کی جانب سے مذاکرات کی پیشکش سے متعلق سوال کے جواب میں مولانا فضل الرحمن کا کہنا تھا کہ ہم پہلے بھی مذاکرات نہیں کررہے تھے اور اب بھی نہیں کریں گے، جو میں کہہ رہا ہوں وہی پی ڈی ایم کا موقف ہے۔پی ٹی آئی پر پابندی سے متعلق سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ یہ فیصلہ عدالت نے کرنا ہے، اگر عدالت یہ سمجھتی ہے کہ پی ٹی آئی پر پابندی ہونی چاہیے تو خس کم جہاں پاک۔