لاڑکانہ(بیورورپورٹ) تحریک انصاف کے مرکزی سینئیر نائب صدر سردار امیر بخش بھٹو اور سینئیر نائب صدر سندھ اللہ بخش انڑ نے لاڑکانہ پریس کلب پریس کانفرنس کرتے ہوئے تحریک انصاف سے راہیں جدا کرنے کا اعلان کیا، سردار امیر بخش بھٹو کا کہنا تھا کہ آج جو پریس کانفرنس ہو رہی ہے وہ ایک ڈیڈھ سال قبل کرنی چاہئیے تھی نومبر 2022 میں سندھ کے صدر علی زیدی سے بات کی اور اسد عمر کو خط لکھا تھا کہ میں ان حالات میں سیاست نہیں کر سکتا لیکن تب مجھے دوستوں نے جانے نہیں دیا، وقت گزر گیا لیکن مسائل کا ازالہ نہیں ہوا سندھ نیشنل فرنٹ کو تحریک انصاف میں ضم کیا تھا لیکن ہم نے کوئی سیٹس نہیں مانگی تھیں ہمارا معائیدہ ہوا تھا کہ تحریک انصاف کی وفاقی حکومت میں 1940 کی قرار دار کے مطابق صوبائی خودمختیاری کو بڑھایا جائے گا اور این ایف سی ایوارڈ پر بھی بات ہوئی, ہم چاہتے تھے کہ سندھ نیشنل فرنٹ کے رہنمائوں کو تحریک انصاف میں عہدے دیئے جائیں لیکن تحریک انصاف نے ہمارے ساتھ کیے ہوئے معائیدے کے کسی بھی نکتے پر عمل نہیں کیا، سردار امیر بخش بھٹو کا مزید کہنا تھا کہ تحریک انصاف اور عمران خان کے پاس سندھ کے لیے کچھ بھی نہیں ہے، انکی ترجیح ہمیشہ پنجاب اور کے پی کے تھے میں نے ہمیشہ عمران خان کو سندھ کے دورے کی دعوت دی انہوں نے ہمیشہ کہا کہ آئونگا لیکن آئے نہیں، انکا مزید کہنا تھا کہ 9 مئی کے واقعات نے تو حد کر دی یہ سیاست نہیں دہشتگردی ہے فوجی املاک کو نقصان پہنچایا گیا کورکمانڈر لاہور کے گھر کی مسجد تک جلا دی گئی، عمران خان کہتے تھے کہ جنرل باجوہ نے انکی حکومت گرائی ایک لمحے کے لیے مان بھی لیکں تو میں شہید ایم ایم عالم اور شہید کرنل شیر خان کا کیا قصور تھا؟ کہ انکی یادگاروں کو جلایا گیا ہم اپنی ہی فوج پر حملا برداشت نہیں کر سکتے، سیاسی اختلافات رکھے جا سکتے ہیں لیکن شہدا کی یادگاروں کو آگ لگانا ملک دشمنی تھی ہم اسے سیاست نہیں مانتے۔ انکا مزید کہنا تھا کہ شھید ذوالفقار علی بھٹو جب اقتدار میں آئے تو 71 کی جنگ ختم ہوئی تھی اور فوج کمزور تھی وہ چاہتے تو فوج کو مزید کمزور کر سکتے تھے لیکن وہ شملہ گئے اور انہوں نے فوجیوں کی واپسی کا معائدہ کیا نیوکلئیر پلانٹ لگایا اپنی جان کی قربانی دینا پڑی اس کو کہتے ہیں سیاسی لیڈر، سردار امیر بخش بھٹو نے کہا کہ جب جلائو گھرائو ہو رہا تھا تو کیوں بنی گالا سے میسج نہیں آیا کہ اس جلائو گھرائو کو بند کرو ؟ جبکہ عمران خان کے کئی روز تک تو ان واقعات کی مذمت تک نہیں کی، موجودہ صورتحال پر اپنے دوستوں کے کل مشاورت کی اور سب نے مشورہ دیا کہ اس صورتحال میں تحریک انصاف کے ساتھ نہیں چل سکتے، میں تحریک انصاف کے تینوں مرکزی عہدوں اور بنیادی رکنیت سے مستعفی ہورہا ہوں، سردار امیر بخش بھٹو کا کہنا تھا کہ سچ پوچھیں تو اب سیاست کرنے کا دل نہیں کرتا، ہماری تربیت اور تعلیم اس سیاسی ماحول سے مختلف ہے ملک کے لیے بہت برے دن ہیں معاشی حالات تو سیاسی حالات سے بھی بدتر ہیں ہمیشہ دوست سمجھے جانے والے ملک چائینہ نے بھی مدد کرنے سے انکار کر دیا ہے، ایک سوال کے جواب میں سردار امیر بخش بھٹو کا کہنا تھا کہ مجھ پر کوئی دبائو نہیں تھا دبائو کا سوال انسے پوچھیں جو جیلوں سے نکل کر پریس کانفرنسز کر رہے ہیں، میرے خلاف تو نہ کوئی کیس داخل ہوا، نہ ہی نیب ایف آئی اے سے سمن آیا ہے، میں تو گھر سے آیا ہوں اور گھر ہی جارہا ہوں امید ہے رات بھی آرام سے گھر ہی مین گزاروں گا، دوسری جانب سردار امیر بخش بھٹو کے ہمراہ تحریک سندھ کے سینئیر نائب صدر اللہ بخش انہڑ نے بھی پارٹی کی بنیادی رکنیت سے استعیفہ دے دیا پریس کانفرنس کے دوران انکا کہنا تھا کہ سینیٹ الیکشنز میں گورنر ہائوس سندھ میں سابق گونر عمران اسماعیل سے ساتھیوں سمیت ملاقات کر کے پارٹی کی جانب سے لاڑکانہ سے سینیٹ کی سیٹ سیف اللہ ابڑو کو دینے کی مخالفت کی تھی لیکن سابق گورنر عمران اسماعیل نے کہا کہ سیف اللہ ابڑو سینیٹ کی سیٹ کے لیے 40 کروڑ پارٹی کو دے رہے اب پتہ نہیں وہ پیسے پارٹی کو ملے یا عمران اسماعیل کھا گئے تاہم تحریک انصاف کو سندھ میں سکھر کے مبین جتوئی اور لاڑکانہ کے سینیٹر سیف اللہ ابڑو جیسے ٹھیکیدار چلا رہے ہیں ہم سندھ کی عوام کے لیے سیاست کر رہے تھے لیکن تحریک انصاف نے سندھ کو کچھ بھی نہیں دیا انکے منشور میں سندھ کا نام ہی نہیں ہے 9 مئی کو جو منصوبہ جوڑا گیا وہ انڈیا کا منصوبہ تھا اپنی فوج کے خلاف نہیں جا سکتے اس لیے عہدے اور بنیادی رکنیت سے مستعفی ہو رہا ہوں۔